صنفی تفریق آخر کیوں ؟

تاریخی لحاظ سے مسخ شدہ مذاہب میں عورت کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ حقدار تھی۔ عیسائیت میں عورت کو جادوگرنی اور شیطان سمجھا جاتا تھا ۔ یہود میں کچھ فرقے ایسے بھی تھے جو عورتوں سے دوری برتتے تھے یہاں تک کہ بیماری میں بھی ان کو الگ رکھتے تھے۔ اہل یونان عورتوں کو گھر کے سازوسامان ہی کا ایک حصہ سمجھتے تھے جبکہ اہل روم عورتوں کو ضعیف العقل گردانتے تھے – ہندوستان میں عورتوں کو ستی کیا جاتا تھا اور وراثت میں حصہ تو دور کی بات ان کے ساتھ جانوروں جیسا برتائو کیا جاتا تھا۔ مغرب میں بیسویں صدی تک عورت دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی رہی ہے ۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ایک باعزت مقام دیا۔ بنیادی انسانی حقوق میں اسلام عورت کو نہ صرف مرد کے مساوی قرار دیتا ہے بلکہ اسلام مردوزن کی کامل مساوات کا داعی ہے جس کی بدولت عورت نسل نو کی امین بن کر مرد سے کئی گنا زیادہ تکریم کی حقدار بن جاتی ہے جس کے پائوں تلے جنت ہے ۔ عورتوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کی ، جس میں مرد اور عورت کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا ہے ۔ یہاں بحیثیت مسلمان ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہم اپنی عملی زندگی میں اس اصول کو اختیار کرتے ہیں ؟ اگر اختیار کرتے بھی ہیں تو کس حد تک ؟ کیا ہمارے معاشرے میں ہمیں مساوات کی عملی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے ؟ یا پھر ہم ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکتے ہیں؟ ہاں بعض حالات میں عورت کو اگر تھوڑی رعایت دی جائے تو اس میں بظاہر کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ مثلاً اکثر ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب ہم ہسپتال ، بینک ، نادرا آفس ، میڈیکل یا یوٹیلٹی سٹور جائیں تو سب سے پہلے خواتین کا کام نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے بعد میں مرد حضرات کا کام کیا جاتا ہے یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کے علاوہ اگر ہم اپنے روئیوں کا جائزہ لیں تو ہر جگہ ہمیں معاشرتی بگاڑ دیکھنے کو ملتا ہے ۔مثلاً اگر کوئی ملازمت پیشہ خاتون اکیلی سفر کر رہی ہے تو بجائے اس کے اس کے ساتھ دیگر خواتین کو بٹھایا جائے اس اکیلی عورت کو باربار نیچے اترنے کی زحمت دے کر اسی نمایاں نشست پر دوسری فیملی کو بٹھا دیا جاتا ہے – یعنی اس اکیلی عورت کے ساتھ اگر کوئی محرم نہ ہو تو اس کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جائے گا ؟ کئی گدھ نما ڈرائیور بلاوجہ بات کرنے اور کرایہ دیتے وقت ہاتھ چھونے جیسی چھچھوری حرکت کرکے ہراساں کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں ایک عورت جب گھر کی چاردیواری سے بغرض تعلیم ، ملازمت یا فطری ضرورت بھی باہر قدم رکھتی ہے تو وہ باپردہ ہونے کے باوجود بھی باوصف بے شمار مسائل کا سامنا کرتی ہے جس میں مرد کی غلیظ اور چھبتی نظریں ، سیٹیاں مارنے ، آوازیں کسنے ، بڑبڑانے جیسی حرکات و سکنات وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے ماحول میں اپنے گھر سے باہر قدم رکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے ۔ یہ تفریق صرف معاشرتی سطح پر نہیں بلکہ پیشہ وارانہ سطح پر بھی روا رکھی جارہی ہے ۔ ہمارے ارد گرد ایسے کئی نجی تعلیمی ادارے ہیں جو تنخواہوں کی ادائیگی میں جنسی تفریق کے اصول پر بڑی سختی سے کاربند ہیں ۔ وہاں میل سٹاف کو پہلے تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ فی میل سٹاف کو سب سے آخر میں تنخواہ دی جاتی ہے یعنی جب تک اپنا حق مانگنے میں بھی سکول انتظامیہ کے ناک میں دم نہ کرایا جائے تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ نتیجتا بے شمار تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لڑکیاں اس تفریق کا شکار ہوکر گھر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ جب تک ہم خود اس تفریق سے بالاتر ہوکر کام کرنے کیلے آمادہ نہیں ہوں گے تو اس برابری کی عملی صورت کبھی سامنے نہیں آسکے گی ۔ مرد حضرات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عورت کو انسان سمجھ کر اس کی تعظیم وتکریم میں کسی بھی قسم کی غفلت نہ برتیں ۔ خود کو غالب اور عورت کو مغلوب سمجھ کر اس کے حقوق کا استحصال کرنے سے گریز کریں۔ اسلامی نقطہ نظر سے عورتوں کے لیے علمی ، اقتصادی ،سیاسی سرگرمیوں کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ مرد اور عورت دونوں کے یکساں حقوق ہیں جس میں اعتدال وتوازن رکھنا ایک فعال معاشرے کی ذمہ داری ہے ۔ "جیو اور جینے دو” کے اصول پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک پرامن معاشرے کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  اختر مینگل پارلیمانی سیاست چھوڑ چلے