امریکہ بھارت شکر رنجی اور پاکستان

ایک طرف امریکہ اپنے یورپی عسکری اتحادی ناٹو ملکوں کے نمائندوں کوبلا کر اپنے مخالفین کو پیغام دے رہا تھا کہ وہ اپنے عالمی مقاصد اور مفادات کے لئے کسی بھی حدتک جا سکتا ہے تو عین اسی لمحے دنیا میں اسرائیل کے بعدامریکہ کے دوسرے سٹریٹجک شراکت دار بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی امریکہ کے دشمن ِدوئم یعنی روس کے صدر ولادیمر پوٹن سے کریملن میں ان کے ملک کا اعلی ترین سویلین اعزاز وصول کر رہے تھے۔اس وقت امریکہ چین کو اپنے پہلے حریف کے طور پردیکھتا ہے تو روس کا اس فہرست میں دوسرا نمبر ہے۔یہی وجہ ہے امریکہ سے مودی کے دورہ ء روس کے ساتھ ساتھ اس کی ٹائمنگ کو بھی اسی طرح محسوس کیا گیا جس طرح یوکرین پر روسی حملے کے روز عمران خان کی کریملن میں موجودگی کو دیکھا اور محسوس کیا گیا تھا۔دونوں دورے اتفاق بھی ہوسکتے ہیں مگر امریکہ نے اس ٹائمنگ کی کسک محسوس کی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ امریکہ سے کوئی ڈونلڈ لواس سب کے باوجود مودی کو ہٹانے کی فرمائش پر مبنی خواہش کا اظہار نہیں کرے گا۔بھارت کے معاملے میں امریکہ کی ناراضی کا مختلف انداز میں اظہا رکیا گیا۔سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے اس دورے پر تشویش کا اظہا ر کیا جبکہ دہلی میں متعین امریکی سفیر ایرک گارسینی کا ایک معنی خیز جملہ خاص اہمیت اختیار کر گیا۔امریکی سفیر نے انڈیا ڈیفنس نیوز کانکلیو دہلی میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس انداز سے نہ دیکھے کہ یہ کسی بھی حالت میں غیر متزلزل رہیں گے۔انڈیا کو سٹریٹجک خودمختاری پسند ہے تو میں اس کا احترام کرتا ہوں لیکن جنگ کے دوران خودمختاری کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔امریکہ اور انڈیا کو ضرورت کے وقت قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر مل کر کام کرنا چاہئے۔امریکی سفیر کے اس شکوے بھرے بیان میں جس ایک جملے کو اہمیت حاصل ہوئی وہ تھاکہ اب کوئی بھی جنگ دور نہیں۔اس جملے میں دھمکی کا انداز بھی تھا خبر کا پہلو بھی اور شکوے کا لہجہ بھی۔اس جملے کا ایک مطلب تو یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ آج اگر یوکرین میں روس اور امریکہ ویورپ کے درمیان پنجہ آزمائی ہورہی ہے تو کل اس خطے میں بھارت اور چین یا پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی کشمکش شروع ہو گی اور پھر امریکہ بھی اس جنگ میں غیر جانبدار ی اپنائے گا۔امریکی سفیر کے اس جملے کا اگر حقیقت میں یہی مطلب ہے تو بھی امریکہ ایشیا میں چین کے مقابلے میں ایسی کوئی غیر جانبداری دکھاتا ہوا نظر نہیں آتا۔پاکستان کو جنگوں میں استعمال کرتے ہوئے معاشی طور پر مفلوج کرکے جنگوں کے قابل ہی نہیں چھوڑا گیا اس لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی فوری جنگ تو بعید ازامکان ہے مگر چین کے ساتھ اس کی کشیدگی کسی بھی باقاعدہ جنگ میں ڈھلنے کا امکان موجود ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت خطے میں بالادستی کے خوابو ں کا پیمانہ چھلکانے کو تیار بیٹھا ہے اورچین کے معاشی ابھار کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرنے پر آمادہ نہیں۔ایسے میں مودی کے دورہ ء روس کے باعث امریکہ اور بھارت میں شکر رنجی سی ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔یہ واقعی شکر رنجی یعنی بظاہر دکھائی دینے والی دوری رنج وملال ہے یا دونوں کے تعلق میں واقعی ایک دراڑ آچکی ہے قطع نظر اس کے مگر نائن الیون کے بعد دونوں کے درمیان پیارمحبت دوستی وتعلق کو نظر لگ چکی ہے۔بھارت نے کمال مہارت اور سرعت کے ساتھ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکہ سے جو کچھ حاصل کرنا تھا سٹریٹجک شراکت داری کے نام پر حاصل کیا۔اس عرصے میں امریکہ نے علاقائی سیاست کے حوالے سے بھارت کی تمام مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھ کر حل کیا۔بھارت نے یہ تعلق قائم کرتے ہوئے امریکہ کویقین دلایا کہ دونوں مسلم شدت پسندی کے مظلوم ہیں۔امریکہ ٹوئن ٹاور کا مظلوم ہے تو بھارت پارلیمنٹ حملے کا شکار ہے۔ان دونوں علامتوں کو نشانہ بنانے کا مقصد دوتہذیبوں پر سوچ سمجھ کر حملہ کرنا تھا۔امریکہ کے ساتھ تعلقات کی گرم جوشی کی جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ چین کے مقابلے اور خطرے کے نام پر پوری کر دی گئی۔بھارت نے امریکہ میں چین کے حقیقی مدمقابل کے طور پر اپنی کامیاب مارکیٹنگ کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔ امریکہ نے جنرل مشرف کے دور میں ہی پاکستان کو تو دوچار دھمکیوں سے قابو کرکے بھارت کے ساتھ پیس پروسیس کی رسی میں باندھ دیا مگرچین کے خلا ف ایک مضبوط علاقائی سیاسی اور عسکری اتحادی کے طور پر بھارت کو نہایت اہتمام سے تیار کیا جاتا رہا۔امریکہ نے چین کے ساتھ تصادم اور چین کی کلائی مروڑنے کے دن کے لئے بھارت پراپنی ساری سرمایہ کاری کی تھی۔ان کا خیال تھا کہ جب جنوبی چین کے سمندروں میں امریکہ اور چین آمنے سامنے آئیں گے تو بھارت اس تصادم میں اگلے مورچے کا کردار ادا کرے گا۔گویا کہ امریکہ کو بھارت کو چین کے ساتھ اپنی مڈبھیڑ میں جنوبی ایشیائی ناٹو کے طور پر دیکھتا تھا۔اس ضرورت کے امتحان کا پہلا لمحہ اور لٹمس ٹیسٹ یوکرین پر روسی حملہ بنا۔امریکہ نے اپنے یورپی اتحادیوں اور ناٹو کے ساتھ روس کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے جب اپنے جنوبی ایشیائی سٹریٹجک شراکت دار بھارت کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھا تو بھارت کا موڈ اور مزاج بدلا ہوا پایا۔بھارت اس جنگ میں غیر جانبداری کا انداز اپنائے ہوئے رہا اور امریکہ کے ہر دبائو کا مقابلہ کرتا نظر آیا۔یوں امریکہ کو پہلے مرحلے میں ا ندازہ ہوگیا کہ ان تلوں میں تیل نہیں کے مصداق وہ جس بھارت کو چین کے خلاف عسکری محاذکے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے امریکہ کی خواہشات پوری کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ بھارت روس جیسے اپنے دیرینہ اتحادی کی دوستی سے محروم ہوگا یہی نہیں وہ ایران جیسے امکانات سے بھرپور ملک اور چابہار بندرگاہ کے ممکنہ فوائد سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور چین کے ساتھ اس کی کشیدگی کا گراف مزید بلند ہوجائے گا۔اس لئے بھارت نے امریکہ کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کیا۔چین روس اور ایران متبادل پول بنا نے پر مائل ہیں اور اگر اس میں بھارت بھی کود پڑتا ہے تو یہ منزل بہت جلد قریب آسکتی ہے۔امریکہ کو بھارت پر اپنی سرمایہ کاری اکارت ہوتی نظر آرہی ہے اس لئے امریکہ کے پاس پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔یوں امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کے کندھے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔عین ممکن ہے اب کوئی جنگ دور نہیں کے جملے میں اس حوالے سے بھی کوئی پیغام پوشیدہ ہو۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ نائن الیون کے بعد کشمیر سمیت کئی معاملات میں امریکہ نے پاکستان کو زمین پر گرا کر بھارت کو جس طرح فتحیاب پہلوان بنایا ہے اب اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟۔

مزید پڑھیں:  سب گول مال ہے رے بھیا گول مال ہے