موسمیاتی تبدیلی کے اثرات

موسمیاتی تبدیلیوںکے باعث پاکستان کی مشکلات میں اضافہ تشویش کا باعث امر ہے اس سال زیادہ درجہ حرارت اور نمی نے نہ صرف انسانی صحت بلکہ مویشیوں کا بھی نقصان اٹھاناپڑا۔ اس سال، زیادہ درجہ حرارت اور نمی نے نہ صرف انسانی صحت بلکہ مویشیوں کو بھی تباہ کیا ہے ، 15000تک مویشی شدید گرمی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ نقصانات موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار آبادی پر پڑنے والے اثرات کے لیے تیاری اور اس کو کم کرنے میں یکے بعد دیگرے حکومتوں کی وسیع تر ناکامی کو نمایاں کرتے ہیں۔امر واقع یہ ہے کہ لائیو سٹاک فارم کی پیداوار اور جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتا ہے۔ پھر بھی، کسان خود کو بڑی حد تک ریاست کی طرف سے لاوارث پاتے ہیں۔ اس طرح کی غفلت موثر موسمیاتی پالیسیوں کو مربوط اور لاگو کرنے میں حکومت کی وسیع تر ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ وطن عزیز کس طرح موسمیاتی آفات کا شکار ہے جس میں مہلک ہیٹ ویوز سے لے کر تباہ کن سیلاب تک شامل ہیں ۔2022ء کے سیلاب کے بعد ریاست کو پوری طرح سے حرکت میں آنا چاہئے تھا لیکن اس کے بجائے مسلسل بے حسی کی کیفیت رہی جو افسوسناک امر ہے ہماری ماحولیاتی کارکردگی ناگفتہ بہہ ہے جیسا کہ کلائمینٹ چینج پرفارمنس انڈیکس اور انوائرنمنٹل پرفارمنس انڈیکس جیسے عالمی اشاریوں پر ملک کی درجہ بندی سے مایوس کن صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے جس سے فضائی آلودگی ، موسمیاتی تخفیف اور بنیادی ڈھانچے کی لچک کے بارے میں پریشان کن بے حسی کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ مزید برآں ہمارے رہنمائوں کی طرف سے دنیا سے موسمیاتی فنانس کی اپیلیں اندرونی اور ملکی اصلاحات کے بغیر کھوکھلی ہیں پاکستان عالمی سطح پر بہتر طرز حکمرانی بہتر ہم آہنگی اور لچکدار انفراسرٹکچر کی تعمیر کے ذریعے موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ عزم کا مظاہرہ کرکے اپنی ساکھ میں بہتری لاسکتا ہے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں خود کو ایک ذمہ دار ملک کے طور پر کھڑا کر سکتا ہے جس کے لئے ضرورت صرف ایک سوچی سمجھی آب و ہوا پالیسی کی ہے جولچکدار ہم آہنگ اور پائیدار ترقی کو ترجیح دیتی ہو اور اس بات کو یقینی بناتی ہو کہ ریاست اپنے لوگوں معیشت اور ماحول کو غیر متوقع آب و ہوا کے بڑھتے ہوئے خطرات سے محفوظ رکھ سکے۔

مزید پڑھیں:  سیاست میں مداخلت صرف2 سال سے ہے؟