خانہ انوری کجا باشد؟

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر ، اتوار کے روز شائع ہونے والے کالم پر اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک پشاوری کرم فرما نے فون کرکے جہاں اور بہت سے مسائل پر بات کی ، محولہ کالم کو سراہا ، وہاں ایک سوال بھی اٹھایا کہ میں دیگر موضوعات خصوصاً سماجی ، ادبی وغیرہ پر تولکھتا ہوں مگر سیاسی حالات پر تبصرہ کرنے سے عموماً گریز کرتا ہوں ، ہم نے اگرچہ ان کے سوال کا جواب تو دے دیا ، تاہم اس حوالے سے ایک پنجابی زبان کے شاعر عبیرابوذری ، جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور مزاحیہ شاعری سے ان کا دیوان بھرا ہوا ہے ویسے بھی جگت بازی کے حوالے سے اہل فیصل آباد کا ثانی نہیں ایسے ایسے جملے چست کرتے ہیں کہ بندہ لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے ، خاص طور پر سیاسی فقرے بازی میں ان کا جواب نہیں ہے ، عبیر ابوذری کی ایک چھوٹی سی نظم بہت ہی مشہور بھی ہے اور کمال کی نظم ہے اس کے چند مصرعے پہلے ملاحظہ فرمائیں اس کے بعد بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور انہی چند مصرعوں سے ہمارے کرم فرما کے اٹھائے گئے سوال کا جواب بھی سامنے آجائے گا ابوذری صاحب فرماتے ہیں
پولیس نوں آکھاں رشوت خورتے فیدہ کی
پچھوں کردا پھراں ٹکورتے فیدہ کی
میں جے چیکاں پاواں شورتے فیدہ کی
کہلی پولیس دے وچ ای رشوت خوری نئیں
کیڑا شعبہ اے جتھے اے کمزوری نئیں
کیڑے مال گودامے ہوندی چوری نئیں
کیڑے امبرسروچ گنج دی موری نئیں
افسر جے نہ ورتن زورتے فیدہ کی
اس نظم کے حوالے سے پہلے ایک لطیفہ نما واقعہ بھی سن لیجئے ایک بار کسی مشاعرے میں عبیر ابوذری صاحب اپنی یہ نظم سنا رہے تھے وہاں احمد فراز کے سنگ بیٹھی ہوئی ایک خاتون شاعرہ نے فراز سے پوچھا ، فراز صاحب ذرا اس کا اردو میں ترجمہ تو کیجئے ، فراز جو خود بہت بزلہ سنج تھے اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اتنے منہ پھٹ تھے کہ بعض اوقات تبصرہ یا طنز کرتے ہوئے بھول جاتے تھے کہ سامنے کون ہے ، یعنی دوستوں کے بقول وہ بندہ ضائع کر دیتے تھے مگر منہ میں آیا ہوا جملہ ضائع نہیں ہونے دیتے ، خاتون شاعرہ کے سوال پر جھٹ سے بولے محترمہ اس شاعری کا ترجمہ تو نہیں کیا جا سکتا البتہ اس کا تجربہ کیا جا سکتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے کرم فرما نے جو سوال اٹھایا کہ ہم سیاسی صورتحال پر کالم کیوں نہیں لکھتے (اگرچہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے اور ضرورت پڑنے پر منہ کا ذائقہ بدلنے کی کوشش کر بھی لیتے ہیں) تو فراز کا محولہ بالا جملہ ہی ہمیں ایسا کرنے سے روک دیتا ہے اور ہم کوئی ناخوشگوار تجربہ کرنے سے سیاسی تبصرہ آرائی سے گریز پا رہتے ہیں کیونکہ ہم خود کو اس حوالے سے فارسی کے مشہور شاعر انوری کی صف میں ہی سمجھتے ہیں جنہوں نے کہا تھا
ہر بلائی از آسماں آید
گرچہ برد یگراں قضا باشد
برزمیں نارسیدہ می پرسد
خانہ انوری کجا باشد؟
اگرچہ ہمارا اشارہ بالکل واضح ہے کہ ملک کے جس حصے میں قیام پذیر ہیں وہاں معروضی حالات کے تناظر میں کسی کی حاشیہ آرائی کے نقصانات تو واضح ہیں یعنی بعد میں ”ٹکور” کی نوبت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن چلیں پھر بھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے گزشتہ روز سیاسی رہنمائوں کے مابین میل ملاقاتوں کے حوالے سے اس خبر پر تبصرہ کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہوئے بقول شاعر”کہ خوں لگا کے شہیدوں میں نام کر جائیں” کی کیفیت سے گزرنے کی جرأت زندانہ کر لیتے ہیں اور اس حوالے سے خبر یہ ہے کہ صدرمملکت نے امیرجمعیت مولانا فضل الرحمن کے دولت کدے(غریب خانے کو ہم جیسے لوگوں کے ہوتے ہیں) پر جا کر نہ صرف ملاقات کی گپ شپ کی ، گلے شکوے سنے اور ساتھ ہی مولانا صاحب کو ایک بندوق بھی تحفے میں دی ، خبر میں یہ تو نہیں لکھا کہ بندوق کے ساتھ گولیاں بھی تھیں یا یہ ذمہ داری مولانا صاحب کی اپنی ہے کہ وہ بندوق چلانے کے لئے گولیاں اپنی جیب سے مہیا کریں گے ، لگتا تو یہی ہے کہ بندوق خالی ہی ہوگی کیونکہ صدر مملکت اتنے بھی سادے نہیں ہیں کہ بھری ہوئی بندوق مولانا صاحب کے ہاتھوں میں تھما دیں ہاں اس بندوق کی کوئی خاص بات یا تاریخی حقیقت کے بارے میں بھی خبر کے دامن میں کچھ بھی نہیں، یعنی اس سے پہلے ایک مرحوم کشمیری رہنماء کی بندوق کے بارے میں مشہور ہے کہ پہلی بار مرحوم نے شہنشاہ ایران کے دورے کے موقع پر ایک بندوق پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وہ تاریخی بندوق ہے جس سے انہوں نے ”جہاد کشمیر” کے موقع پر پہلی گولی چلا کر جہاد کا آغاز کیا تھا ، اس کے بعد ایسی دو چار بندوقیں مرحوم نے مختلف مواقع پر اور بھی کئی شخصیات کی خدمت میں پیش کرکے ان کو بھی ”جہادکشمیر” کے حوالے سے تاریخی نوعیت کا قرار دیاتھا ، تو دیکھتے ہیں مولانا صاحب کو پیش کی جانے والی بندوق کی بھی کوئی تاریخی حیثیت بنتی ہے یا پھر بس ہندی کے الفاظ میں یہ ایک”سادھارن” بندوق ہی ہے ۔ بقول سلیم کوثر
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے ، پس آئینہ کوئی اور ہے

مزید پڑھیں:  مزید تاخیر کی گنجائش نہیں