مرے کو مارے شاہ مدار

حکومت کی جانب سے بجلی صارفین پر 46ارب روپے کا مزید بوجھ ڈالنے کی تیاری کی گئی ہے اور بجلی مزید مہنگی ہونے جارہی ہے حکومت کے پاس اس مسئلے کا ایک ہی حل رہ گیا ہے کہ بلا سوچے سمجھے ناکردہ اخراجات اور حصول آمدن دونوں کا بوجھ صارفین پر ہی ڈالا جائے جن کی کمر پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے خود حکومتی ذمہ داریوں میں مجرمانہ کوتاہی کی جو صورتحال ہے وہ ایک سرکاری ادارے کی رپورٹ سے بخوبی واضح ہے اس رپورٹ کے جائزے سے اس امر کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ حکومت کی نااہلی ہی ہے جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے توانائی کے شعبے میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے45کھرب روپے کے نقصان کا باعث بننے والی خرابیوں، درجنوں حکمت عملیوں کوملک کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا کرنے کا سبب قرار دیا ہیفنڈز کی اس بڑی رکاوٹ کی وجہ سے پاور سیکٹر سخت مالی بحران کا شکار ہے اور پروڈیوسروں کو ادائیگیوں میں تاخیر ہو رہی ہے، نتیجتا، بجلی پیدا کرنے والوں سے اوسط شرح سود2فیصد سے اوسط شرح سود4فیصد تک ادائیگی میں تاخیر کا سرچارج وصول کیا جا رہا ہے۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ بڑی رقم ڈسکوز سے وصول کی جاتی تو پاور سیکٹر کی مالیاتی پوزیشن بہتر ہو سکتی تھی، اس طرح گردشی قرض اور دیر سے ادائیگی کے سرچارج کا بوجھ ختم ہو سکتا تھا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مالی نااہلی کے باعث سال 2021 اور 2022میں ڈسٹریبیوشن کمپنیوں سے توانائی کی فروخت پر2530.65ارب روپے کی عدم وصولی ہوئی۔اس کے باوجود اور تجارتی پالیسی اور بلنگ اور وصولی کے طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ڈسکوز کے آڈٹ نے انکشاف کیا کہ 877.596ارب روپے کی رقم سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں چلنے والے اور مستقل طور پر منقطع توانائی کے نادہندگان سے وصولی کے قابل تھی۔اس سلسلے میں، انتظامیہ کی طرف سے نادہندگان سے وصولی کو تیز کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔اس رپورٹ کے مندرجات سے بخوبی واضح ہے کہ مسئلہ کہاں ہے اور ناکامیوں کی داستان کہاں رقم ہوتی ہے یہ تو سرکاری رپورٹ سے واضح ہے علاوہ ازیں منظم بجلی چوری اور ملی بھگت حکام اور سرکاری اداروں میں بجلی کا بے دریغ استعمال اور اس جیسے دیگر مسائل کا تو تذکرہ ہی نہیں ستم بالائے ستم حکومت شمسی توانائی کے استعمال کو بھی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کر رہی ہے اس ساری صورتحال میں کسی طور اس بات کی امید نہیں کہ اس مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا بلکہ پاور سیکٹر میں سود در سود قرضے کابوجھ بڑھتا جائے گا اور صارفین پر مزید بوجھ پڑے گا پاور سیکٹر میں حکومتی اصلاحات ھیچ ہونے کے باعث آئی پی پیز کا بھاری بوجھ بھی عوام ہی کو اٹھانا پڑ رہا ہے جو بجلی بلوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے مگر جملہ معاملات کے ادراک اور اصلاح پر کوئی توجہ نہیں جو کہ افسوسناک اور عوام پر ظلم کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں:  پارلیمنٹ پر'' حملہ''؟