بلوچستان کے بگڑتے حالات

بلوچستان کے واقعات کی ذمہ داری بی ایل اے کی جانب سے قبول کئے جانے کے باوجود وزیر داخلہ کی جانب سے ان واقعات کو ٹی ٹی پی سے جوڑنے کے پس پردہ یقینا ٹھوس معلومات ہوں گی لیکن بظاہر ان واقعات کی ذمہ داری بی ایل ا ے ہی ہے البتہ اس کا ٹی ٹی پی سے گٹھ جوڑ بعید نہیں ممکن ہے جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہوئی ہے اس کے تناظر میں بہرحال مربوط سازش اور جو استعداد سامنے آیا ہے وہ قابل توجہ اور سوالیہ نشان ہے ۔ اس منظم دہشت گردی میں غیر ملکی گٹھ جوڑ اور ہاتھ ہونا بھی بعید نہیں لیکن یہ سوالات ثانوی ہیں اصل مسئلہ ان عناصر کا منظم ہو کر جگہ جگہ دہشت گردی ہے جس سے تقریباً پورا صوبہ متاثر ہوا ان عناصر کا اس قدر قوت کے حامل اور منظم ہونا بڑے خطرے کی گھنٹی ہے جس کا ملک کو سامنا ہے ۔ صورتحال کے حوالے سے وزیرداخلہ کی پریس کانفرنس مبہم ہی نہیں بلکہ نامکمل اور رسمی ساہی رہا جس میں کسی ٹھوس تیار ی اور اقدامات کی تیاری کا نہ تو اعلان کیا گیا اور نہ ہی اس کا عندیہ موجود ہے جبکہ طویل عرصے سے داخلی امن و امان کی صورتحال سے دوچار صوبے کے وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ حکومت غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کے لئے تیار ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان اب ہدایت کر رہے ہیں کہ سی ٹی ڈی، پولیس، لیویز اور تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکورٹی کا جامع پلان مرتب کر دیں۔امر واقع یہ ہے کہ بلوچستان میں صرف پولیس اور اس کے ذیلی ادارے ہی نہیں ایف سی پوری طرح تعینات ہے لیکن اس کے باوجود بھی صورتحال پر تسلی بخش طریقے سے قابو نہیں پایا جا رہا ہے ایسے میں ایک ہی اقدام رہ جاتا ہے لیکن اس حوالے سے پہلے ہی سے جو فضا بلوچستان میں تیار کی گئی ہے اس کے تناظر میں آخر ی قدم بھی احتیاط سے اٹھانا ہوگا بہرحال یہ خوفناک حملے بتاتے ہیں کہ بلوچ عسکریت پسندوں نے ریاست اور سیکورٹی فورسز کے خلاف اپنی پرتشدد مہم تیز کر دی ہے۔امر واقع یہ ہے کہ بلوچستان کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں، خاص طور پر ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد، کئی مسلح علیحدگی پسند گروہوں کے ابھرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ مضبوط شواہد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ کا تعلق بھارت اور دیگر پڑوسی ممالک سے ہے، ان گروہوں نے سیکورٹی فورسز، عوامی تنصیبات، چینی مفادات، بلوچستان میں غیر مسلح پنجابی کارکنوں اور سیاستدانوں کو نشانہ بنایا ہے جو عسکریت پسندوں کے مقابلے میں بلوچوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کے لئے جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی پرتشدد کارروائیوں اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی شدید مذمت کی جانی چاہئے۔ اگرچہ صوبے کو بے رحمی سے نشانہ بنانے والوں کے خلاف متحرک کارروائی ضروری ہے، لیکن سول اور سیکورٹی قیادت کو بلوچستان کے سوال پر گہرائی سے غور کرنا چاہئے اور ان عوامل کی نشاندہی کرنی چاہئے جنہوں نے بلوچ اور ریاست کے درمیان کشیدگی کو بڑھایا ہے۔ بے اطمینانی کی اس لہر کے پیچھے جو نوجوان متوسط طبقے کے مردوں اور عورتوں کو احتجاج پر مجبور کر رہے ہیںوہ برابر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خراب سماجی اقتصادی حالات، اور سیاسی حقوق سے انکار پر تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ یہ عوامل دہشت گرد گروپوں کے لئے بھرتی کے لئے ایک زرخیز زمین فراہم کرتے ہیں جو ناراض، مایوس عناصر کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی تلاش میں ہو۔مرکز اب بلوچ آوازوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا، خاص طور پر جو تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور امن چاہتے ہیں اور تبدیلی کے لئے حقیقی کوششیں کرتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی بات سننے اور تعاون کرنے سے ہی دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہے۔بلوچستان کے مسائل دوہرے اور پیچیدہ ہیں جن کے حل کے لئے جہاں ایک جانب طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے وہاں دوسری جانب حکومت اور ریاست کو بلوچوں کے مسائل اور ان حالات کے پس پردہ عوامل کا بھی غیر جذباتی انداز میں جائزہ لے کر اصلاح احوال کی ٹھوس ابتداء کرنی ہو گی اس کا اعلان اور عزم ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے لیکن عملی طور پر بلوچ عوام سیاسی قوتوں اور دیگر عوامل کے ہاتھوں بدستور یرغمال ہیں جن کا اپنے حقوق پر احتجاج بھی صدالبصحرا بن جاتی ہے جو مایوسی کا شکار عوام میں مزید مایوسی او ر نفرت کی لہر کا باعث بننے کا بڑا سبب ہے جسے ختم کئے بغیر پراپیگنڈہ کرنیوالے عناصر اور اس سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں لگے شاطروں کی سازشوں کی روک تھام مشکل ہوگی بلوچستان کے حالات سنجیدگی کے حامل او توجہ کے متقاضی ہیں جس پر قومی سطح پر غور اور اسی سطح پر فیصلے ہونے چاہئیں جو عملدرآمد کی ضمانت کے ساتھ ہوں۔

مزید پڑھیں:  سیاست میں مداخلت صرف2 سال سے ہے؟