احتجاج، دھرنے اور جلائو گھیرائو کی سیاست

گزشتہ روز پیشہ ورانہ کام کے سلسلے میں اسلام آباد سے پشاور جانا ٹھہرا تو مارگلہ ایونیو سے ہوتا ہوا جب پشاور اسلام آباد موٹر وے پر چڑھنے کے لئے گاڑی کا رخ موڑا تو سڑک کے بیچوں رکاوٹیں لگائے پولیس اہلکاروں نے روکا۔ اس پر پورے شہر کا ایک لمبا چکر کاٹا تو دوسرے سرے پر چونگی نمبر 26 سے تھوڑا سا آگے پھر راستہ بند تھا۔ خدا خدا کرکے جب اسلام آباد ٹول پلازے کو کراس کیا اور تھو ڑا سا آگے بڑھا تو براہمہ جھنگ باہتر انٹر چینج سے پی ٹی آئی کے جوشیلے جوان ڈول کی تھاپ پر ناچتے ہوئے سڑک کے بیچوں بیچ نظر آئے۔ اس دوران پشاور اسلام اباد موٹر وے کافی دیر تک مسافروں کے لئے بند رہا۔ ایک طرف ناچتے گاتے نوجوان اور دوسری طرف پولیس اہلکار مسافروں کو آگے جانے نہیں دے رہے تھے۔ اس دوران اس بھیڑ میں سائرن بجاتے ایمبولینسز بھی نظر آئے اور دوسری طرف سہرہ سجے دلہن کو بارات کی شکل میں لے جانے والی گاڑیاں بھی۔اس بپھرے ہجوم میں گرمی کی شدت سے نڈھال بچے، بھوڑے اور خواتین بھی تھیں لیکن کسی کو کسی کا خیال نہیں رہا۔کوئی ادھر سے ادھر اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کررہا تھا اور کوئی ادھرسے ادھر نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ بہر حال چار وناچار لوگ بے بسی کے عالم میں جب اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے تو تھوڑی دیر بعد پی ٹی آئی کے زیر اہتمام ترنول میں ہونے والا جلسہ ملتوی کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا گیا۔یہ سوال اپنی جگہ کہ جلسہ کیوں، کیسے اور کس کے کہنے پر ملتوی کیا گیا لیکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ یہ احتجاج، دھرنوں ، اور جلاو گھیراو کی سیاست کب تک چلے گی؟ اس ملک کے عوام سیاسی مسیحاوں کی سیاسی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ کب تک چڑھتے رہیں گے؟ اب تک تقریبا پانچ بار اس جلسے کا اعلان کرکے ملتوی کردیا گیا ہے۔ اب چھٹی بار یہ جلسہ آٹھ ستمبر کو ہوگا اور لوگوں کو اب سے فکر لگی ہوئی ہے کہ یا اللہ آٹھ ستمبر کو کسی کے گھر میں کوئی ایمرجنسی نہ آنے دے۔ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا ہر شہری، گروہ یا سیاسی جماعت کا قانونی حق ہے۔ کسی بھی مسلے پر اپنی آواز کو بلند کرنا ہر شہری کا بنیادی، قانونی اور آئینی حق ہے اور اس حق کو کسی بھی طریقے سے عوام سے چھینا نہیں جا سکتا لیکن یہ حق بھی کسی قانون، ضابطے اور قاعدے کے تحت استعمال ہوگی۔ ہمارے ہاں روایت یہ چلی ہے کہ جلسہ کرنے کیلئے عموما کسی سڑک یا قومی شاہراہ پر کسی چوک کا انتخاب اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ ٹریفک کو جام کرکے کیمرے کی آنکھ سے عوام کی تعداد کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاسکے اور یوں عوام سے جلسے یا جلوس کی کامیابی کا سرٹیفیکیٹ لیا جاسکے۔ دوسری طرف حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام کو کسی بھی طرح سے روک کر اور منتشر کرکے انہیں مطلوبہ ہدف پر پہنچنے سے روک سکے۔ اسکے لئے چاہے اسے کسی قسم کی طاقت استعمال کرنے کا سہارا لینا پڑے۔ اسکے لئے کبھی آنسو گیس اور واٹر کینن کا ا استعمال کیا جاتا ہے اور ضرورت پڑے تو لاٹھی چارج کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ زرخیزجمہوری معاشروں میں جہاں کہیں بڑی تعداد میں لوگ نکلتے ہیں تو حکومتیں انکا نوٹس لیتی ہیں اور ان کے جائز مطالبات کے حل کیلئے مطلوبہ کوششیں بھی کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں عمومی مزاج یہ ہے کہ کسی طرح سے احتجاج کرنے والوں کا زور توڑ دو اور انہیں احتجاج کے جمہوری حق سے محروم رکھو۔ اسی لئے شاید عوام اس قسم کی احتجاجوں میں متشدد کارروائیوں پر اتر آتے ہیں۔ دکانیں توڑتے ہیں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، ٹایر جلاکر احتجاجی نوعیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور اکثر اوقات اسلحے کا استعمال کرکے سکیورٹی اہلکاروں کو زخمی کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ جتنا شدید نوعیت کا احتجاج ہوگا، اتنا ہی اسکا سرکاری سطح پر نوٹس لیا جائیگا۔ ہماری سرکار بھی نوٹس تب لیتی ہے جب سانحہ باہر دنیا کی میڈیا میں رپورٹ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پر امن طور پر منتشر ہونے والے مظاہرے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہاں کامیاب مظاہرہ وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ متشدد ہو، جس میں زیادہ سے زیادہ لاشیں گریں اور جس میں مالی نقصانات زیادہ سے زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے نام پر سیاست تو کرتے ہیں لیکن جمہوری رویوں سے یکسر عاری ہیں۔ جمہوریت نام ہے برداشت کا، صبر کا، تحمل کا اور ایک دوسرے کے باہمی احترام کا۔لیکن ہمارے ہاں سیاست کو وہ گھناونا کھیل بنا یا گیا ہے جس کے نام سے ہی لوگ نفرت کرنے لگے ہیں۔ سیاستدانوں سے درخواست ہے کہ خدا را سیاست کو سیاست ہی رہنے دیں۔اسکو پارلیمان تک محدود رکھیں۔ اپنے سیاسی جھگڑے وہیں نمٹائیں۔ سیاست کو عوام کے گھروں تک نہ لائیں۔خدارا اس ملک کے پسے ہوئے عوام پر رحم کھائیں اور غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے عوام کو اپنی جھوٹی انا، سیاسی مفادات ، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔

مزید پڑھیں:  مزید تاخیر کی گنجائش نہیں