بی آر ٹی اور نیب

کالم کی سرخی سے کہیں آپ یہ تاثر نہ لیں کہ میں بی آر ٹی میں کرپشن کی بات کرنے لگی ہوں وہ جو بوریاں بھر کرکے بی آر ٹی کاریڈور کی تعمیر میں بدعنوانی ہوئی تھی وہ اب تذکرے کے حد تک رہ گئی ہے جب عدالت سے ہی اس بارے رکاوٹ ہو تو پھر سمجھو کہ معاملہ قصہ پارینہ شنید اربوں روپے کی ہے لیکن یقین نہیں آتا کہ کسی منصوبے میں اربوں روپے کی کرپشن بھی ہوسکتی ہے شاید اس وجہ سے اس کی تعمیراتی لاگت کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی یہ منصوبہ اب بھی نامکمل ہے نہ مطلوبہ تعداد کی بسیں آئی ہیں اور نہ ہیمنصوبہ مکمل ہو سکا ہے کاریڈور کی بار بار مرمت سے بھی صورتحال واضح ہے بہرحال اندازتاً اس کی آدھی بسیں یا اس بھی کم اور سروس چلا دی گئی وہ اپنی جگہ یہ جو آٹھ سو دکانیں اور مال کی تعمیر نامکمل پڑی ہے کم از کم اس کی تو تعمیر کر لیں تیسری حکومت میں بھی اگر یہ مکمل نہ کئے جا سکے تو صوبے میں چوتھی حکومت کا کیا پتہ ملے نہ ملے لیکن میرا موضوع یہ نہیں بلکہ ایک مسافر کی طرف سے اپنے مشاہدات کا بیان ہے جو روز اول سے بی آر ٹی کا روزانہ کا مسافر ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ عموماً ہر دو طرف سے چونکہ پہلے دوسرے سٹاپ کا مسافر ہے اس لئے ہمیشہ بس کے آخری حصے کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں کبھی کبھار ہی ان کو خواتین کی نشستوں کے حصے کے ساتھ دروازے کے سامنے سیٹ پر بیٹھنا پڑ جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ا نہوں نے کم ہی دیکھا ہے کہ خواتین کے لئے مختص دروازے کے سامنے مردوں کی بھیڑ نہ لگی ہو بعض ایسے مرد مسافر ضرور ہیں جو مجبوری میں اس طرف کھڑے تو ہوتے ہیں لیکن خود کو بے چین پاتے ہیں ان کو اچھا نہیں لگ رہا ہوتا ہے کہ وہ یہاں کھڑے ہوں لیکن بعض وہ جو جان بوجھ کر یہاں آکر کھڑے ہوتے ہیں ان کی نظریں مسلسل خواتین کی نشستوں کی طرف لگی ہوتی ہیں ایک عجیب سی ہوس ان کے چہرے اور آنکھوں میں نظر آتی ہے آتی جاتی خواتین سے وہ کسی طرح لگنے کی
بھی کوشش میں ہوتے ہیں خواتین بے چاری سمٹ سمٹا کر بس میں بیٹھتی اور اترتی ہیں آخر اس طرح کے لوگوں سے منہ لگنا کوئی آسان کام تو نہیں مرد کمپارٹمنٹ میں بھی لوگ محسوس تو کرتے ہیں لیکن اس قماش کے لوگوں سے الجھنا ان کے بھی بس کی بات نہیں حیرت اس مرد گارڈ پر ہوتی ہے جو کہلاتا تو گارڈ ہے مگر صرف ٹکٹ کٹانے اور کارڈ لگانے کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ تو ٹھیک ہے مگر کم از کم جب گاڑی چل پڑے تو یہ تو دیکھے کہ خواتین کے گیٹ پر جمگٹھا کیوں لگا ہے اور وہاں غیر سنجیدہ گفتگو اور حرکتیں کیوں ہورہی ہوتی ہیں لیڈیز گارڈ سے توقع ہی نہیں کہ وہ دور دروازے پر کھڑی نہ بھی ہو تو بھی یہ ان کے بس کی بات نہیں کمپنی نے لیڈیز پورشن رارڈ لگا کر علیحدہ کرنے کا تو اعلان کر چکی ہے مگر سوائے ایک دو بسوں کے کہیںبھی اس کا وجود نہیں اس طرف توجہ کی ضرورت ہے تاکہ خواتین ہراساں ہوئے بغیرسفر کرسکیں۔ بعض سٹینڈ پر یہ جو مرد گارڈ کا جمگٹھا اکٹھا لگا ہوتا ہے یہ بھی مناسب نہیں ایک گارڈ سے جب خواتین کمپارٹمنٹ سے شکایت کی گئی تو اس کا جواب تھا کہ ان لوگوں کو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ٹھیک نہ کر سکے میں کیا کر سکتا ہوں اسی طرح بعض اناڑی قسم کے ڈرائیور بھی بھرتی ہوئے ہیں لیکن ان کی تعداد قابل ذکر نہیںنیب سے صرف بی آر ٹی کے معاملات کی تحقیقات میں تساہل کی شکایت نہیں اس کے پورے نظام اور وجود پر سوال ہے کہ آخر جس مقصد کے لئے اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے وہ کب پورا ہو گا برسہا برس مقدمات کی پیشیاں ہی لگتی ہیں اور مقدمہ ثابت نہیں اس طرح سے صرف ہو سست روی ہی نہیں مقدمات بھی قصہ پارینہ بن جاتے ہیں ایک قاری کا مراسلہ ملاحظہ فرمائیں اور خود ہی اندازہ لگائیں کہ اس طرح کے ادارے کے وجود کی حاجت ہی کیا۔نیب اور اس کی کارکردگی جس طرح کے نام سے ظاہر ہے کہ اس محکمہ کا کام ہے پکڑنا ان لوگوں کو جو بدعنوانی سے مال بناتے ہیں اب خدا بہتر جانتا ہے کہ کتنے لوگوں کو صحیح پکڑ کر ان سے پیسے وصول کئے اور کتنے لوگوں کو بیگناہ پکڑا اور سیاسی مقاصد کے لئے اور اب تو سارا پاکستان بلکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ نیب کا ادارہ کیوں بنایا گیا حالانکہ محکمہ اینٹی کرپشن پہلے سے موجود ہے۔نیب بغیر ثبوت کے کیسیز بناتی اور لوگوں کو گرفتار کرتی ہے اور مہینوں تک بند رکھتی ہے اور یہاں تک کہ ضمانت بھی نہیں ہوتی اور کرپشن کے نام پر لوگوں کو خوار و ذلیل کیا جاتا ہے اوربعد میں سارے لوگ رہا ہو جاتے ہیں باوجود اسکے کہ ان کو سزا بھی ہوتی ہے اور پھر نیب خود کہتی ہے کہ ان کیسیز میں ثبوت نہیں ہیں۔ اب ان لوگوں کو جو اتنا عرصہ جیل میں رکھ کر اور خوار و ذلیل کرکے پھر رہا کیا جاتا ہے وہ کس سے اس ذلالت اور جیل میں بند رکھنے کا حساب مانگیں ،کیا اسکا بھی کوئی قانون ہے۔اسکی کارگردگی اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ پہلے پولیس ایف آئی آر صرف ایک کاغذ کے رم منگوانے پر درج کرتی تھی اور اب ہزاروں، لاکھوں تک بات پہنچی ہے اور اسی طرح ایک ڈاکٹر کا تبادلہ بھی کپڑوں کے ایک جوڑے یا فروٹ کے کریٹ پر آسانی سے ہو جاتا تھا ، لیکن اب یہ ڈیمانڈ لاکھوں میں ہے۔اگر ان کا کام صحیح
ہوتا تو اتنے بڑے بڑے سیاستدان کیسے کرپشن کے کیسز میں بری ہوجاتے ۔یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہے ۔ اس لئے تو ایک سیاستدان جو پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے برملا کہتا ہے کہ اگر پاکستان کو کامیاب کروانا ہے تو نیب کو ختم کرنا ہوگا ،ورنہ یہ سب عبث ہے ۔نیب کی کارکردگی کا اندازہ اس کیس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ نیٹ اور ایک لیزینگ اور انویسٹمینٹ کمپنی( NATOVER LEASING) جس میں غریب لوگوں نے زیادہ منافع کی لالچ میں پیسے جمع کرائے اور یہ کمپنی باقاعدہ سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی تھی اور باقاعدہ شیئر کا کاروبار بھی ہوتا تھا۔بعض لوگوں نے اچھے خاصے منافعے بھی لئے۔لیکن اچانک یہ کمپنی 2008 میں دیوالیہ ہو گئی اور یہ کیس پہلے عدالتوں میں چلتا رہا اور پھر یہ نیب پشاور کے حوالے کر دیا اور اسکا مالک گرفتار ہے،اور اس کمپنی کے تمام اثاثوں کو تحویل میں لیا گیا ہے جن کی موجودہ مالیت کروڑوں میں ہے ۔ یہ کیس 2017سے احتساب عدالت پشاور میں چل رہا ہے اور اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی کچھ پتہ نہیں کہ اس کا کیا بنا عدالت میں متاثر یں کو بلایا جاتا ہے اور کمپنی کے مالک کو بھی پیش کیا جاتا ہے یہ سلسلہ عرصہ سات سال سے جاری ہے اس کیس کا نیب سے کئی دفعہ پتہ بھی کیا گیا لیکن کوئی صحیح معلومات نہیں دیتا۔جب احتساب عدالت سے معلومات کی گئیں تو جواب یہ ملا کہ ابھی تک شہادتیں ہورہی ہیں۔ یہ کیس کے شر وع دنوں کا حال ہے،اب کیا ہورہا ہے یہ خدا بہتر جانتا ہے اور اب تو یہ لگتا ہے کہ اس کیس کے بہت متاثرین شاید اس دنیا میں نہ ہو بلکہ کمپنی کا مالک بھی عمر رسیدہ شخص ہے اسکا بھی کوئی پتہ نہیں ۔ کروڑوں روپے اسکے سٹاف اور عدالتوں اور انویسٹی گیشن پر خرچ ہورہا ہے،لیکن متاثرین کی نہ تو شنوائی ہوئی ہے اور نہ ہی ان کو رقم واپس ملنے کی کوئی ا مید ہے یہ ہے نیب کی کارروائی اور بس۔

مزید پڑھیں:  خالدہ ضیاء طرز رہائی کاخواب