تاجر دوست سکیم ، متضاد رویئے؟

ملکی معاشی حالات نے عام عوام کو جن مسائل سے دو چار کر رکھا ہے ، ان کی بنیادی وجوہات میں حکومتی پالسیاں اور ہر مسئلے کا حل ہر شعبہ زندگی پر ٹیکسوں کا نفاذ ہے ، بجلی اور گیس کے دو شعبے ان میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں جن میں ہرماہ عوام پر مسلسل بوجھ بصورت ٹیکسوں اور قیمتوں میں اضافہ ہی سوہان روح بنتا جارہا ہے بلکہ بن چکا ہے ، عوام کی چیخ و پکار کا حکومت پر کوئی اثر ا نہیں ہو رہا ہے بلکہ نت نئے طریقوں سے یوٹیلٹی بلز میں تسلسل کے ساتھ اضافہ عوام کی پہلے سے دوہری ہوتی ہوئی کمر کو مزید جھکانے کا باعث ہے ، ابھی تین روز پہلے وفاقی وزیرتوانائی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت ملک میں پری پیڈ میٹروں کی تنصیب کا فیصلہ کر چکی ہے تاہم اس سے فرق کیا پڑے گا؟ نظر بہ ظاہر تو جولوگ ان میٹروں کے لئے بجلی نہیں خریدیں گے ان کوبجلی نہیں ملے گی تاہم کیا اس کے بعد جو لوگ بجلی چوری کرتے ہیں وہ ان حرکتوں سے باز آجائیں گے اور کنڈے ڈال کر بجلی چوری نہیںکریںگے؟ او کیا اس سکیم کے بعد جو لوگ اب بھی بجلی کے بل باقاعدگی اور ایمانداری سے ادا کرتے ہیں انہیں کوئی فائدہ ہوگا؟میٹروں کی تنصیب سے کسی طور بھی بجلی چوری کا سدباب نہ ہو گا جب ایسا ہی ہے تو پھر ان میٹروں کی تنصیب عوام پر اضافی بوجھ اور محکمے ہی کو فائدہ ہو گا ایسا کرکے بھی اگر عوام پر مزید بجلی گرانے کی ضرورت باقی نہ رہے تو عوام ایک مرتبہ کا یہ تلخ گھونٹ پینے کو بھی تیار ہوں گے ظاہر ہے ایسا ہر گز نہیں ہونے والا ، اسی طرح دوسرے شعبوں پر جونت نئے ٹیکس نافذ کئے جارہے ہیں یا پہلے سے نافذ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے مہنگائی کاایک طوفان امنڈ آتا ہے اس کے باوجود حکومتی اللوں تللوں(مبینہ کرپشن ، غبن اور چوری چکاری سے ماوریٰ) پر بے دریغ اخراجات پر روک نہ لگانے کی پالیسی کے نتائج ملکی معیشت کے لئے خطرناک ثابت ہونے پر کوئی دوآراء نہیں ہوسکتیں ، مگر ان سے نمٹنے کے بجائے سرکاری پالیسیاں ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ کرکے ہی مقاصد کے حصول تک محدود رہتی ہیں اور یہی سب سے آسان طریقہ بلکہ نسخہ ہے جس پر سابقہ اور موجودہ حکومتوں میں ایک عرصے سے عمل کیا جارہا ہے ، ان ٹیکسوں کے نفاذ سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ عام لوگوں ، تنخواہ دار طبقوں اور خصوصاً چھوٹے تاجروں اور دکانداروں پر کس قسم کے اثرات مرتب کر رہا ہے اس کے نتائج روز مرہ اخراجات میں بڑھوتری اور غریب عوام کی اشیائے خوردنی تک رسائی میں ناکامی ہے ، لوگ اب دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں بلکہ اگر تلخ حقائق کو دیکھا جائے تو ایک وقت کے اخراجات پورے کرنے میں بھی مشکلات درپیش آرہی ہیں اور مختلف رپورٹوں کے مطابق ملک کی غالب اکثریت غربت کے گڑھے میں تیزی سے گرتی جارہی ہے ، ایسے میں حکومت کی جانب سے تاجر دوست سکیم کے نام پر بڑے تاجروں سے لے کر چھوٹے تاجروں ، گلی محلے کے چھوٹے دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اقدام مزید مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے گا بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹیکس کے نفاذ کا جو نظام رائج ہے اس کے نتائج بالاخر نچلے طبقات کو مزید دبائو میں لانے کا باعث بن جاتے ہیں اور قدم قدم پر ان ٹیکسوں کا سارا بوجھ عوام ہی باالواسطہ طور پر اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ صنعت کار اور تاجر ان تمام اضافی ٹیکسوں کا رخ (اپنی مصنوعات اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پورا کرنے کے لئے) عوام ہی کی جانب پھیر لیتے ہیں مگر تابہ کے؟ عوام آخر کب تک یہ بوجھ سہار سکتے ہیں اوپر سے فائلر اور نان فائلر کے نام پر (مبینہ نان فائلر) عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں ہر مقام پر مزید ٹیکس لگا کر عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے حالانکہ عوام ہر سطح پر بالواسطہ طور پر ہر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں آج (جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں) ملک بھر میں ”تاجر دوست سکیم” کے تحت ٹیکس کے نفاذ کے خلاف ہڑتال اس بات کی غماض ہے کہ کسی بھی طبقے کو یہ ٹیکس قبول نہیں ہے مگر ایف بی آر کی دھمکی نما پیغام سے اس سکیم کو ختم کرنے کی نفی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اس س کمی کو (کچھ ردو بدل کے ساتھ) نافذ کرنے پر بہرصورت بضد ہے اس قسم کے سخت رویئے سے وہ مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے جن کی توقع کی جارہی ہے ، اس لئے ہماری گزارش ہے کہ سرکار اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے نرمی برتے تاکہ کوئی ناخوشگوار صورتحال جنم نہ لے۔

مزید پڑھیں:  سیاست میں مداخلت صرف2 سال سے ہے؟