ہمارا” یکتائے روزگار” پاکستان

کسی دور میں پاکستان کو یکتا اور یگانہ ثابت کرنے کے لئے بے شمار دلائل دئیے جاتے تھے ۔اسے کلمہ کی بنیاد پر بننے والا واحد ملک کہا جاتا تھا ۔اسے رمضان کی مبارک ساعتوں میں معرض وجود میں آنا والا ملک کہا جاتا تھا ۔اس کے قیام کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی اور لاکھوں کی ہجرت کے حوالے دئیے جاتے تھے ۔ اسے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی ڈھال اور پشتیبان کہا جاتا تھا ۔یہ تو اس کے نظریاتی امتیازات ہوا کرتے تھے ۔جغرافیائی امتیازات کی بھی ایک طویل فہرست ہوتی تھی ۔اس کے اندر چارموسموں ،سمندروں صحرائوں پہاڑوں اور میدانوں کے تنوع کے حوالے دئیے جاتے تھے ۔جس کے ایک سرے پر جھلسا دینے والی لُو چلتی ہے تو دوسرے کونے میں ہڈیوں کا گوداجمادینے والی سری پڑی رہی ہوتی ہے ۔قیمتی اور انواع واقسام کی معدنیات کے ذخائر کے حوالے اس کی انفرادی شان کو مزید بڑھانے کے لئے دئیے جاتے تھے ۔وقت یوں پلٹا کہ یہ ساری حقیقتیں بے معنی سی ہو کر رہ گئیں ۔ایسا نہیں کہ ان میں کوئی حوالہ بے جوا ز اور بے بنیاد تھا ۔ہر دعوے کا غالب حصہ حقیقت سے قریب تر تھا مگر اس سب کے ہوتے ہوئے اب پاکستان کے یہ سب امتیازات پس منظر میں چلے گئے ہیں اور پاکستان دنیا میں کئی نئے حوالوں سے سامنے آرہا ہے ۔جن میں سب بڑا حوالہ یہ ہے کہ دنیا کی واحد ایٹمی طاقت جو معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑی ہے ۔پچیس کروڑ انسانوں کی آبادی کشکول لئے کبھی عالمی اقتصادی اداروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتی تو کبھی پڑوسی ملکوں کے دارالحکومتوں میں بینکوں میں تبرکاََ رکھنے کے لئے پیسے مانگتی پھرتی ہے ۔دنیا کا واحد ملک جہاں حکمران طبقات کا شمار دنیا کے سیکڑوں بڑے امیر اور سرمایہ دار افراد میں ہوتا ہے مگر ریاست غربت کی گہرائیوں میں گم ہو گئی ہے ۔جس کے امیروں کی دولت دنیا بھر کی معیشتوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے مگر ملک کی اپنی رگ جاں چند ارب ڈالر کے ادھار پر قائم ہے ۔انسانی حقوق اور سیاسی نظام کے حوالے سے تماشوں کی توکوئی بات ہی نہیں ۔حد تو یہ کہ برطانیہ میں ہنگاموں کا باعث بننے والی فیک نیوز کا ایک کردار بھی پاکستان سے برآمد ہوگیا ۔بتایا گیا کہ ملزم فرحان آصف ایک نیو ز پلیٹ فارم کے لئے کام کرتا ہے ۔فرحان آصف نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے ایک خبر پوسٹ کی اور اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ خبر اس قدر وائرل ہوجائے گی۔خبر یہ تھی کہ برطانوی شہر ساوتھ پورٹ میں تین بچوں کو قتل کرنے والا تارک وطن ہے جو کشتی کے ذریعے برطانیہ پہنچا ہے۔سفید فام انتہا پسند ذہن جو پہلے ہی لیبر پارٹی کی جیت سے خوش نہیں تھا شاید اسی خبر کا انتظار کر رہا تھا ۔ایک سال قبل لانچ کے ذریعے داخل ہونے والا تارک وطن کہنے کے بعد شاید خبر بریک کرنے والوں کو مزید کسی کام کی ضرورت نہیں تھی ۔سفید فام انتہاپسندوں نے اس ادھوری خبر سے ملزم کا خاکہ بھی تراش لیا اور جو تصور بنی وہ کسی مسلمان کی تھی کیونکہ ان کا خیال ہے کہ انسانی حقوق سے محروم اور بے روزگاری سے تنگ مسلم عوام ہی لانچوں کے ساتھ لٹک کر یورپ میں داخل ہوتے ہیں ۔بس پھر کیا تھا برطانیہ میں مسلمان مخالف ہنگامے پھوٹ پڑے اور مسلمانوں کے گھروں املاک اور مساجد کو نشانہ بنایا جانے لگا ۔خبر پاکستان سے چلی اور بی بی سی کے مطابق اس کی تشہیر برطانیہ کے ایک کرائم ویب چینل نے شروع کر دی ۔یہ چینل کرائم کی خبریں جمع کرکے سوشل میڈیا سے پیسے کماتا ہے ۔یوں ایک غلط خبر سے نہ صرف یہ کہ برطانیہ کا بہترین سماجی تانا بانا اُدھڑتے اُدھڑتے بچ گیا بلکہ لیبر پارٹی کی حکومت بھی قائم ہوتے ہی ایک دلدل میں دھنسنے سے بال بال بچ گئی ۔برطانیہ میں قوموں اور مذاہب کے درمیان بہترین سماجی ہم آہنگی ہے ۔مسلمان اس معاشرے کا ایک متحرک اور لازمی جزو ہیں ۔وہ بلا خوف وخطر اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں ۔جن نظریات اور آزاد رویوں کا مظاہرہ کرنے پر وہ اپنے آبائی ملکوں میں دہائیوں جیل میں سڑھ سکتے ہیں برطانیہ میں وہ ان کا اظہارسکون سے کرتے ہیں اور دوسرے روز کوئی انہیں غائب کرنے بھی دروازے پر آن موجود نہیں ہوتا ۔اس بہترین ماحول کو خراب کرنے کا باعث بننے والی خبر کا کوئی نہ کوئی تعلق پاکستان سے نکلے گا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔بعد میں جب حقیقت کھلی تو معلوم ہوا کہ نابالغ ملزم کا تعلق روانڈا کے عیسائی گھرانے سے ہے جو پیدائشی برطانوی شہری ہے ۔نائن الیون کے بعد جب پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی برآمد کرنے والی ایک فیکٹری کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا جب بھی کسی مغربی ملک میں ایسا واقعہ ہوتا تو دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں کی سانسیں اٹک جاتی تھیں اور وہ بے ساختہ دعائیں مانگنے لگتے کہ خدا کرے اس میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو کیونکہ اس کے بعد پاکستانیوں کو سبز پاسپورٹ کی مزید بدنامی اور بے توقیری کا بوجھ اُٹھانے کی ہمت نہیں تھی ۔ اس دور میں بیرونی دنیا میں عام پاکستانی سماجی طور پر اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہوا کرتے تھے ۔وہ کہانی خدا خدا کرکے ختم ہو گئی تھی مگر ایک ایسے قصے میں پاکستانی شہری کا نام نکل آیا جس کے ساتھ پاکستان کا کوئی لینا دینا سرے سے تھا ہی نہیں ۔پاکستانی معاشرہ اپنی حالت زار اور رویوں کے باعث راکھ کا ایک ڈھیر ہے جس کو گلستان بنانے کے لئے کسی مسیحا نفس اور رجل رشید کے دست شفا کی ضرورت ہے ۔پاکستان آج جن حوالوںسے یکتائے روزگا ر یعنی دنیا میں منفرد اکیلا اور واحد ہے اس کا خواب کسی نے بھی نہیں دیکھا ہوگا ۔بات اب باجے بجانے سے بہت دور نکل چکی ہے۔اب معاملہ دست شفا اور ہیلنگ ٹچ تک پہنچ گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  ماحولیاتی آلودگی کا سنگین مسئلہ