مودی کی ہوائی یاترا اور پاک بھارت تعلقات

بھارت کے پردھان منتری شری نریندرا مودی اپنے مخالف پڑوسی ملک کی مسحور کن فضاں میں اگست کی صبح پون گھنٹے کی ہوائی یاترا کرنے کے بعد اپنی جنم بھومی لوٹ گئے ۔ان کا یوں پاک فضائوں میں آنا اور بنا کسی رواجی خیر سگالی کے دو لفظی پیغام کے ہند سدھار جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستان کی خفگی کی ا ماوس ابھی نیم شب پر چڑھی ہے ، اب شاید کوئی معجزہ ہی سحر کو ھویدا کر سکتا ہے اور پچھلی ایک دہائی پر محیط تواتر کے ساتھ گرتے بگڑتے ہوئے پاک ۔انڈیا تعلقات کو دوستانہ میل جول پر ڈال سکتا ہے ان تعلقات کی 77 سالہ تاریخ کا صفحہ پلٹتے ہی یہ دکھائی پڑتا ہے کہ ا ن مملکتوں کو قیام کے ساتھ ہی کشمیر کے ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جغرافیائی و سیاسی انضمام کے سوال نے نارو جور کی قربان گاہ پر ڈال دیا تھا ۔جیسے جیسے پاکستان اور ہندوستان کی عمر کے ماہ و سال گزرتے جا رہے ہیں اسی تواتر اور توازن کے ساتھ ان کے تعلقات میں تلخی و نفرت دو چند ہوتی جا رہی ہے۔ برطانوی ہندوستان تقسیم ہوا تو کانگریس ،مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے رہبروں نے اپنے پرکھوں کی روایات کو سنبھالا دیتے ہوئے سرحدی تنازعات اور اثا ثہ جات کی منصفانہ تقسیم جیسے نازک معاملات سے صرف نظر کرتے ہوئے بے گناہ انسانوں کے لہو سے سرخ زمینوں پر بھی بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنے کی سعی کی ۔ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو جنا ح کی سماجی شاموں کے شریک آزاد کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ،غفار خان کے عقیدت مند اور مسلم لیگ کی تمام لیڈر شپ کے نصف صدی کے ہم رکاب تھے۔ اس تعلق کے بھرم کو قائم رکھتے ہوئے آزادی ہند و پاک کی ہندو مسلم قیادت نے بے اندازہ حل طلب مسائل کے ہوتے ہوئے بھی کبھی معاملات کو اس بند گلی کے نکڑ پر لے جانے کی کوشش نہیں کی جہاں آج ہندو پاک تعلقات یہاں کی قیادت کی غلطیوں کے ہاتھوں پہنچ چکے ہیں ۔یہ نہرو اور پاکستان میں موجود مسلم قیادت کا نصف صدی کا تعلق ہی تھا جس کی وجہ سے نہرو مسئلہ کشمیر کو خود یا پاکستان سے حل کرانے کی بجائے اقوام متحدہ لے گئے ۔یہ بعد کا قصہ ہے کہ یہ مسئلہ جب سے اب تک عالمی ادارے کے ایوانوں میں ایک نامکمل ایجنڈے کی شکل لٹک رہا ہے۔سن ساٹھ کی دہائی اور اس کے وسط میں ستمبر 1965کی جنگ پاک بھارت تعلقات میں ایک ایسا موڑ ہے جہاں پر ا کر ازادی سے پہلے کے عوامی و سیاسی رابطے ٹوٹتے نظر آتے ہیں ۔اس کے فوری بعد سانحہ مشرقی پاکستان نے ان تعلقات کو وہ شکل دی جس کے الفاظ آگ و خون سے ڈھلے ہوئے نظر آتے ہیں ۔نہرو سے نوابزادہ لیاقت و ما بعدتک کے اٹوٹ رابطے بحرہند کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے ان کی جگہ عسکری دماغوں ،سرد جنگ کی سوچ اور مذہبی انتہا پسندی کی فکر نے لے لی ۔یہاں تک کہ جن الزامات کا 1947سے 1960تک پاک و ہند کی پریس میں ذکر تک خال خال ملتا ہے وہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں سیاسی و عسکری مداخلت اور ہر اندرونی معاملے پر بیرونی ہاتھ کے بیانیوں کی شکل میں پاکستان اور انڈیا کے سرکاری لکھاریوں کے بے کمال قلموں سے باکمال شکل میں سامنے آگئے اور خارجہ تعلقات پر اثر انداز ہونے لگے ۔ماہ اگست کی نیم شب کے یہ تولیدین آج ایک دوسرے کے ہاں دہشت گردی کے الزاموں کے ثبوتوں کی دستیاں اٹھائے عالمی اداروں کے دروازے کھٹکھٹاتے نظر آتے ہیں ۔اس منظر نامے کا حاشیہ سوالوں کی بھرمار سے مزین ہے ۔ایک چاندی جیسے چمکتے دمکتے پردے پر سیاہی سے اٹا ایک سوال نظر آتا ہے کہ کیا نیوکلیائی طاقت کے حامل یہ ملک ایک دوسرے سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گے یا اس بعید تر ٹکرا کی وجہ خاص مسئلہ کشمیر کو کسی قابل قبول ڈگر پر لا کر اپنی آنے والی نسلوں کو ارضی جنت دینے کی سعی کریں گے۔ نئے بین الاقوامی سیاسی منظر نامے میں ہندوستان ترقی کی کئی سیڑھیاں ابھی سے پھلانگ چکا ہے اور پاکستان اتنی ہی سیڑھیاں لڑھک چکا ہے ۔پاکستان کے کل کے جگری دوست آج ہندوستان کی مالا جپتے نظر آتے ہیں وہاں کی صدارتی امیدوار سے لے کر خلاء نورد تک اور تمام بڑے کمپیوٹر سے متعلقہ مصنوعات بنانے والے اداروں کے سربراہان اور انسانی سوچ کو متاثر کرنے والے تھنک ٹینکس کے ہیڈز زیادہ تر بھارتی نثراد ہیں۔ جنہوں نے200 سال سے زیادہ ہندوستان پر حکمرانی کی وہاں 21 ویں صدی میں ایک بھارتی نثراد وزیراعظم ا کر بھی چلا گیا ۔ چین کا لنگوٹیا یار ہونے کے باوجود پاکستان لنگوٹی کس نہیں پا رہا ہے۔ چینیوں کی سوچ سب سے دوستی پر مبنی ہے وہ دشمنوں کو بھی اپنی معاشی و سائنسی ترقی سے نہ صرف مرعوب کرتے ہیں بلکہ اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں لیکن چین کے لنگوٹیے کے ہاں ایسا نہیں ہے ۔اٹوٹ مذہبی رشتوں میں بندھے عربی دوست ہم سے کنارہ کر کے ہندوستان کے بن بیٹھے ہیں ۔کیا رہ گیا ہے ایک عسکری و جنگجو روئیے رکھنے والی بہادر قوم کے پاس۔یہی دکھائی دیتا ہے کہ ان حالات میں چِین کی چھتری کے نیچے چین کی بانسری بجائیں۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ پورا کشمیر نہ تو ہندوستان کو مل سکتا ہے نا ہی پاکستان کو ۔ہاں اس بات پر ایک خونی نیوکلیئر جنگ ضرور ہو سکتی ہے جس کے بعد کے برصغیر کی جغرافیا ء و سیاسی شکل کے بارے میں کچھ کہا جانا قبل از وقت ہوگا ۔ ہندوستان اور پاکستان کی قیادت کو بہر طور اپنے تعلقات کی سرد مہری کو ختم کرنا ہوگا جس طرح نہرو مسئلہ کشمیر کو بجائے خود یا پاکستان سے حل کرانے کے اقوام متحدہ لے گئے اور جنرل مشرف اور واجپائی کشمیر پر کچھ دو اور کچھ لو پر رضامند ہو گئے تھے بالکل اسی طرح وسیع القلبی کے ساتھ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کو اپنے ملکوں کے خصوصی اور برصغیر کے کروڑوں انسانوں کی عمومی بہتری کے لیے ان مسابقانہ جنگجویانہ رویوں کو اپنے ذہنوں اور عملی میدان سے نکالنا ہوگا جنہوں نے1965کے بعد اپنے آپ کو ایک پتھریلے بیانیے کی شکل میں مضبوط کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان قلعوں کو مسمار کر دیا جائے اور ایک معاشی طور پر مستحکم ایشین سینچری میں داخل ہوا جائے ۔جنگ عظیم اول کا بڑا سبب اور حاصل سبق یہی ہے کہ ریاستوں کے مابین مضبوط معاشی تعلقات کا فقدان اقوام کو میدان جنگ میں لے جاتاہے۔ اگرپاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک مضبوط معاشی تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اگست کی طرح مشینی ڈرون تو پاک ۔بھارت سرحد پار کر کے اترتے رہیں گے لیکن شایدعربوں کے وقت کے معاشی رابطے ان دو باہمی مشت و گریباں پڑوسیوں کے مابین کبھی بحال نہ ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  صنعتی بستیوں کا قیام