قومی ترانے کی بے حرمتی

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتازز ہرہ بلوچ نے گزشتہ روز پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں جس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور بھی موجود تھے ، افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر کی جانب سے پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونے کی مذمت کرتے ہوئے اس فعل کو سفارتی اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج ریکارڈ کروانے کا عندیہ دیا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک افغان قونصل جنرل کے اس غیر سفارتی ا قدام کا تعلق ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ، دنیا بھرمیں جہاں کہیں مختلف نوعیت کی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور ان تقریبات میں میزبان ممالک کے قومی ترانے بجائے یا سنائے جائیں تو تقریب کے شرکاء ایک عالمی اصول اور احترام کے قواعد و ضوابط کے تحت ان ترانوں کے احترام میں کھڑے ہو کر اپنی یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں ، مگر گزشتہ روز جس طرح پاکستان کے قومی ترانے کی افغان قونصل جنرل نے نہ صرف بے حرمتی کی بلکہ اس کے بعد نہایت ڈھٹائی کے ساتھ افغان قونصیلٹ پشاور کے ترجمان شاہد اللہ نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے قونصل جنرل کے اس غیر سفارتی اقدام کا ”ناقابل قبول” جواز پیش کیا اور کہا کہ ترانے میں میوزک تھا ، ہم نے اپنے ترانے پر بھی میوزک کی وجہ سے پابندی لگائی ترانہ اگر بغیر میوزک کے ہوتایا بچے پیش کرتے تو قونصل جنرل کھڑے بھی ہوتے اور سینے پر ہاتھ بھی رکھتے”۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غیر منطقی جواز ہے جسے پشتو کی ایک ضرب المثل کے مطابق ”بھوسے میں سے پانی گزارنے ” سے تشبیہ دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا جبکہ اس ضمن میں صوبائی حکومت کے ترجمان کے اس موقف پر بھی حیرت کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ ”افغان قونصل جنرل کو برادر ہمسایہ ملک کی نسبت سے بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا ، مناسب ہو گا کہ افغان قونصل جنرل اپنے اقدام کی خود وضاحت کریں انہوں نے یہ بھی کہا کہ قونصل جنرل کی جانب سے وضاحتی بیان سے پہلے موقف دینا قبل از وقت ہو گا”۔ صوبائی ترجمان کا یہ بیان نہ صرف پاکستان کے قومی ترانے کی بے حرمتی کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو کمزور کرنے کے مترادف ہے بلکہ ”معذرت خواہانہ”رویہ کے زمرے میں شمار کیاجا سکتا ہے ، اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں ان پر زیادہ بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ بقول شاعر ، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے ، دوسری جانب اسلام آباد میں سرکاری ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ آج قومی ترانے کے بے ادبی کرنے والے افغان عہدیدار کی دستاویزات مکمل نہیں ہیں ، قونصل جنرل محب اللہ شاکر کے پاس نہ تو افغانی پاسپورٹ ہے نہ ہی کوئی دوسری دستاویزبلکہ پی او آر کارڈ پر یہ اور ان کا خاندان 2015ء میں یو این ایچ سی آر سے ڈالر اور راشن لے کر افغانستان واپس جا چکے تھے ان کے پی او آر کارڈ بھی کب کے ایکسپائر ہو چکے ہیں اور یکم ستمبر سے ان سمیت تمام افغان غیر قانونی طور پر مقیم ہیں کیونکہ ان کو وزارت داخلہ کی جانب سے مزید توسیع نہیں دی گئی ۔ درایں صورت سوال اٹھتا ہے کہ جب ایک غیر ملکی شخص اور اس کے خاندان کا قیام ہی غیر قانونی ہے تو اسے بطور قونصل جنرل کام کرنے کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی ہے ، ویسے بھی انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ افغانوں کی جینز ہی میں پاکستان مخالفت رویہ آج سے نہیں صدیوں سے موجود ہے ، اس کا پہلا مظاہرہ برصغیرمیں جب تحریک خلافت کے حوالے سے مسلمانوں نے انگریز حکمرانوں کے خلاف بھر پور احتجاج کرتے ہوئے ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے تحت افغانستان ہجرت کی تو ان کے ساتھ اس دور کی افغان حکومت کا معاندانہ اور اسلام دشمن رویہ تاریخ کا ایک انمٹ باب ہے ، اس کے بعد جب ہندوستان کی آزادی کا اعلان کرکے تقسیم کی گئی تو افغانستان واحد مسلمان ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شرکت کی مخالفت کی ، اسی پر بات نہیں رکی ، افغانستان پر روسی یلغار کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندوں کو پاکستان نے پناہ دے کر اسلامی بھائی چارے کا ثبوت دیا ، مگر بعد میں حالات تبدیل ہونے کی وجہ سے جن افغانوں نے واپسی کی راہ اختیار کی انہوں نے (خصوصاًنسل) نے واپس جا کر پاکستان دشمنی کو وتیرہ بنا لیا اسی طرح افغان کرکٹ ٹیم کو ہر قسم کی سپورٹ اور پاکستان کے سینئر کھلاڑیوں کی جانب سے تربیت دلانے میں جو سہولتیں اور امداد مہیا کی گئی وقت اور موقع ملتے ہی انہی افغان کھلاڑیوں کی جانب سے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کے خلاف اپنا بغض ظاہر کرتے ہوئے دنیا نے دیکھا اور اب معاملہ پاکستان کے قومی ترانے کی بے حرمتی تک جا پہنچا ہے حالانکہ طالبان ہی کے پہلے دور حکومت میں جب ملا عمر برسر اقتدار تھے کبھی ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جبکہ اس وقت بھی پاکستان کے ترانے میں موسیقی شامل تھی ، افغان قونصلیٹ کے ترجمان کی جانب سے پیش کئے جانے والے جواز کوکسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا اس لئے وزارت خارجہ افغان حکومت پر شدید احتجاج ظاہر کرتے ہوئے قونصلیٹ کے موقف کو نہ صرف رد کرے بلکہ قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر ”پرسانا نان گریٹا” یعنی ناپسندیدہ قراردیتے ہوئے جلد از جلد پاکستان سے چلے جانے کا حکم صادر کر دے۔

مزید پڑھیں:  بی آر ٹی بسوں میں خواتین کی ہراسگی