رشتہ اولاد کا حق، والدین کا فرض

اس کالم کیلئے تواتر سے قارئین میسج اور واٹس ایپ کی صورت میں مسائل ومشکلات اور دیگر حوالوں سے مواد بھیجتے ہیں، قابل اشاعت مواد کو کالم میں شامل کیاجاتا ہے جبکہ اکثر مسائل ومعاملات کا تعلق حکومت اور مختلف اداروں سے ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ایسے بھی پیغامات ملتے ہیںجن کو پڑھ کر انسان سوچنے لگتا ہے کہ ایسا بھی ہونا ممکن ہے۔ بہت ساری خواتین اور لڑکیاں ایک خاتون ہونے کے ناتے اپنی کتھا میں بھی شریک کرتی ہیں۔ انسانی ہمدردی کا متلاشی ہر انسان ہوتا ہے، چند میٹھے بول نصیحت اور مشورہ سے کسی کا بھلا ہو تو اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی۔ گزشتہ روز ایک ایسا واٹس ایپ میسج ملا، جسے پڑھنے کے بعد میں مسلسل سوچتی رہی، ویسے بھی ایسی لڑکیاں جو شادی کی عمر کی ہوں اور وہ کوئی غلط قدم اُٹھائے بغیر، ماں باپ کی رضامندی اور دعاؤں کیساتھ شادی کے مقدس رشتے میں بندھنے کی متمنی ہوں، مجھے بہت بھلی لگتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ اس طرح کی سعادت مند صاحبزادیاں اب معاشرے میں کم ہوتی جارہی ہیں۔ آج کل تو رواج یہ ہوگیا ہے کہ بچیاں اور بچے فیصلہ کرکے والدین کو فیصلہ سنا دیتے ہیں اور اس پر والدین چاہیں یا نہ چاہیں انگوٹھا لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک اقدار کے اندر رہتے ہوئے پسند کا رشتہ بالکل بھی معیوب نہیں بلکہ محبوب ہے۔ والدین اگر پسند کی شادی کی بچوں کی خواہش کے مطابق رشتے کو مناسب خیال کریں تو اس سے اچھی بات کوئی ہو نہیں سکتی۔ والدین کی غالب اکثریت قریب قریب تمام ماں باپ کو بچوں کی خوشیاں عزیز ہوتی ہیں۔ اب تو وہ زمانہ رہا نہیں کہ والدین نے اُٹھا کے کسی کے پلو سے باندھ دیا اور رخصتی کردی۔ ایسا تو اب خال خال کہیں کہیں ہوتا ہوگا۔ اب تو پوری معلومات اور تفصیلات وجزئیات تک سے آگاہی کے بعد کئی میل ملاقاتوں کے بعد ہی ہاں کرنے کی باری آتی ہے۔ کچھ حالات بدل گئے ہیں اور کچھ سماج اور معاشرے نے رشتوں کو سودا اور مشکل بنا دیا ہے۔ کبھی تو تجارت اور رشتے میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بہرحال مختلف سماج اور معاشروں کے مختلف رواج اور تقاضے ہوتے ہیں۔ شہروں کے الگ، قصبوں کے الگ اور دیہات کے الگ۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس سماج میں خاندانی اقدار، سماجی روایات، معاشرہ و خاندان ہر کسی کو جگہ ملتی ہے اور اگر کچھ نظر انداز ہوتا ہے تو وہ دین اور شریعت ہے جس کی پابندی اور پاسداری نہیںکی جاتی۔ بہت سارے گھرانوں میں بلاوجہ کی روایات اور عجیب وغریب شرائط جن کو پورا کرنا اپنی توہین کے مترادف ہوتا ہے مروج ہیں۔ شادیوں میں اسراف اور فضول خرچی اتنی ہونے لگی ہے کہ اس حدیث کی عملی تشریح سامنے آجاتی ہے جس میں اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔
میں نے کالم لکھنا تھا اس صاحبزادی کے واٹس ایپ پر جس کی عمر اب تیس سال سے اوپر ہوچکی ہے، جو سکول ٹیچر ہے، ان کے والدین کو معقول پنشن ملتی ہے، بھائی برسرروزگار اور کماؤ ہیں، خاندان کو ان کی تنخواہ کی ضرورت نہیں، رشتے بھی ان کے کئی آئے، مناسب بھی تھے اور اچھے بھی مگر خاندان والوں نے اس کی شادی نہ کرانے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ ممکن ہے اس صاحبزادی کا خیال درست نہ ہو مگر اپنے والدین کے حوالے سے یہ کہہ دینا کہ وہ میری تنخواہ کی لالچ میں میرا رشتہ نہیں کراتے، بڑے دل گردے کی بات ہے۔ بہرحال یہ صرف ایک لڑکی نہیں، اس طرح کی کئی لڑکیاں شاکی ہیں، مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس طرح کی کسی لڑکی نے عزیز بھائی سے رشتے کیلئے دعا کی درخواست کی تو انہوں نے دعا کیساتھ ساتھ رشتے کی تلاش بھی کی، وہ لڑکی بھی اُستانی تھی اور ان کی بھی تقریباً یہی کہانی تھی مگر جب سترہ گریڈ کے ایک وجیہہ نوجوان جسے لڑکی خودبھی جانتی تھی کا پیغام ان کو دیا گیا تو لڑکی ہچکچا گئی، پتہ چلا کہ ان کیساتھ بھی کچھ اس پیغام دینے والی بیٹی جیسا معاملہ ہے۔ میں نے تذکرہ اس لئے کیا کہ دونوں کہانیوں میں اتنی مشابہت ہے کہ مجھے شک ہے کہ یہ لڑکی کہیں وہی نہ ہو۔ مجھے کسی ماں باپ سے ان کے فیصلے اور رویہ کے بارے میں کچھ کہنے کا کوئی حق نہیں، لیکن میں تمام والدین سے ایک عمومی گزارش ضرور کروں گی کہ جس طرح ہر ماں باپ اپنی بیٹی کا گھر بسانا اور آنکھیں بند ہونے سے پہلے اپنے بچوں کو بستا دیکھنا چاہتے ہیں اس کیلئے جدوجہد کرتے ہیں قربانیاں دیتے ہیں، زندگی بیتا دیتے ہیں، اور تقریباً تمام والدین خواہ وہ امیر ہوں، متوسط طبقے کے ہوں یا غریب سبھی اس معاملے میں یکساں سوچ اور طرزعمل رکھتے ہیں تو اکا دکا وہ والدین جو اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے رشتے کرانے میں رشتے کرنے میں اور رشتہ قبول کرنے میں کوئی مفاد یا مصلحت ان کو باز رکھتی ہے وہ توکل کرکے ان کے اچھے نصیب کی دعا کیساتھ رشتہ طے کریں۔
بیٹیوں کی عمریں برف کی طرح ہوتی ہیں پگھلنے لگے تو دروازے پہ کوئی نہیں آتا، رشتہ میں تعجیل کا حکم ہے تاخیر کا نہیں۔ میسج کرنے والی بیٹی کے اس جملے نے میرے دل کو چیر کے رکھ دیا ہے کہ ”اگر میرے خاندان کو میری تنخواہ اور مدد کی ضرورت ہوتی تو میں رشتہ کا سوچتی بھی نا”۔ خدارا اتنا سنگ دل نہ بنیں، اپنی اولاد کیساتھ ظلم نہ کریں، ان کا رشتہ طے کریں اور معاملات اوپر والے پر چھوڑ دیں۔
قارئین اس نمبر 9750639 0337-پر اپنی شکایات اور مسائل میسج اور وٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت