اسے کیا نام دوں؟

یہ خارجہ پالیسیاں بھی عجیب ہوتی ہیں، کبھی اس میں نظریات اور کبھی معاشیات بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 1960ء کے عشرے سے لے کر 1990 تک جب دنیا اہم دو بلاکوں میں تقسیم تھی اور سرد جنگ زوروں پر تھی تو اس کے پیچھے سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظریات اور طرزہائے حکومتیں کارفرما تھیں۔ بعض اوقات مذہبی نظریات اور مسالک بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، سعودی عرب اور ایران نے اپنے اپنے مسلک اور اسی بنیاد پر اپنے نظریات ومفادات کی ترویج وحفاظت کیلئے پراکسی لڑائیاں لڑیں جو آج بھی شام اور یمن وغیرہ میںجاری ہیں۔ پاکستان بھی ایک زمانے میں دونوں کے ان نظریات وسیاسیات کے درمیان سینڈوچ بنا رہا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور پاک فوج کی قربانیوں سے ان مشکلات سے نکل آیا۔
معاشی مفادات آج کل کی خارجہ پالیسیوں پر بری طرح اثرانداز ہوتے ہیں، اب دیکھئے نا کہ امریکہ کے بھارت اور سعودی عرب وغیرہ کیساتھ دفاعی سودوں اور دیگر شعبوں میں تجارت کے ذریعے سینکڑوں ارب ڈالر کے مفادات وابستہ ہیں لہٰذا یہ دونوں ملک سعودی عرب یمن میں اور بھارت کشمیر اور پاکستان یا نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں کے مفادات کیخلاف جو کچھ بھی کرتا ہے، وہ آنکھیں موند لیتا ہے اور سنی کو ان سنی کر دیتا ہے۔ بھارت کیخلاف یورپ کے ممالک نے اپنی تحقیق وتفتیش کے ذریعے جو انکشافات کی ہیں کہ کس طرح بھارت جعلی این جی اوز اور تنظیموں اور میڈیا گروپس کے ذریعے پاکستان اور چین اور ان دونوں ملکوں کے درمیان اہم معاہدے سی پیک کیخلاف ڈس انفارمیشن کی مہم اور ہائبرڈوار چلاتا رہا ہے، کوئی اور ملک اس طرح کرتا تو آج سپرپاور کی بمبارمنٹ کے نیچے ہوتا۔
آج کی دنیا میں معاشی لحاظ سے کمزور ہونا گناہ کبیرہ میں شمار ہے کیونکہ کمزور معیشت والے ملکوں کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہوتی، وہ بے چارے جہاں سے قرض لئے ہوتے ہیں، ان ملکوں اور اداروں کے دباؤ کے تحت اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
پاکستان کو ماضی قریب میں اس کے تلخ تجربات رہے ہیں، ہمارے ہاں زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے بجلی، گیس، پیٹرول اور بعض دیگر اشیاء کی قیمتیں آئی ایم ایف کے دباؤ پر بڑھتی رہتی ہیں اور ہمارا ملک ہمارے نالائق حکمرانوں کے سبب ہمیشہ کشکول لئے اس ملک کو اپنی عیاشیوں کے سبب گروی رکھتے آئے ہیں۔ جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ملک تقریباً نوے ارب ڈالرز کا مقروض ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو گزشتہ لئے گئے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کیلئے قرض لینا پڑا ورنہ دیوالیہ ہونے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ دیوالیہ سے بچنے کیلئے ہمارے پرانے خیرخواہوں نے ہمیں پانچ چھ ارب ڈالر تو دے دئیے لیکن تاریخ میں یہ ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے ہماری معاشی کمزوریوں کو بھرپور طور پر استعمال کیا ہے۔ کوالالمپور کے سمٹ میں شرکت نہ کرنا، اس کا تازہ شاخسانہ اور شازیانہ ہے اور اب نیا دباؤ جس کو ہمارے وزیراعظم شاید بھرم رکھنے کیلئے تسلیم نہیں کررہے، یہ ہے کہ ہماری بات (تسلیم اسرائیل) نہیں مانتے تو ہمیں اپنے پیسے واپس کر دو۔ بالکل چھوٹے بچوں کی طرح کوئی فرمائش لگتی ہے اور
ویسے بھی بادشاہ اور شہزادے ہوتے بھی بچے ہیںنا۔۔ کیونکہ وہ اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو قانون اور دل کی ہر خواہش کی تکمیل کو آخری چیز مانتے ہیں۔ لیکن شاید عمران خان کی ضد سے وہ واقف نہیں تھے لہٰذا ایک ارب ڈالرز دو ماہ قبل، ایک ارب ڈالرز گزشتہ دنوں اور اب ایک ارب ڈالرز جنوری میں واپس کر رہے ہیں اور پاکستانیوں سنو! یہ تین ارب ڈالرز پاکستان کو کون دے رہا ہے کہ سعودی عرب کو واپس کر دو، وہ ملک ہے چین۔۔ چین کیساتھ نہ نظریات، نہ مذہب، نہ تاریخ، نہ زبان نہ کچھ اور صرف جغرافیہ اور مشترک مفادات اور اب بہت کچھ، گیم چینجر سی پیک نے دونوں ملکوں کو لازم وملزوم بنا کر رکھ دیا ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ ہمارا کبھی پکا یار ہمیں اس حد تک تنگ کرنے پر آگیا ہے اور چین ہمیں چھڑا رہا ہے لیکن ٹھہرئیے! دوستی اپنی جگہ، جغرافیہ اور سٹریٹجک معاملات اپنی جگہ، کیا معاشی مفادات اہم کردار ادا نہیں کر رہے، پاکستان خیال رکھے، کہیںہماری آزادی ایک جگہ سے آزاد ہوتے ہوتے کہیں اور گروی نہ ہونے پائے۔ جتنا جلدی ممکن ہو حکومت بچت وکفایت شعاری پر زور اور معاشیات کو مضبوط بنانے کو جنگی بنیادوں پر آگے بڑھائے کہ آج کی خارجہ پالیسیاں اور دوستیاں معاشی مفادات کے تحت گھومتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں