افغان امن مذاکرات کا اہم موڑ

ایک مرتبہ پھر ان دنوںافغان طالبان ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کے دورے پر ہے، وفد نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، اس امر کا بھی امکان ہے کہ طالبان کا وفد اپنے تین روزہ دورہ میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرے گا، یہ دورہ پاکستان کی دعوت پر ہو رہا ہے جو تنازع کے پرامن حل کیلئے تمام افغان اسٹیک ہولڈرز تک پہنچنے کی پاکستان کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ دریں اثناء صدر اشرف غنی سے فون پر گفتگو میں وزیر اعظم نے افغانستان میں تنازع کے سیاسی حل کیلئے امن عمل کی مکمل حمایت کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں حالیہ پیشرفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی جانب سے تمام فریقین سے رابطے اس کی طرف سے سہولت کاری کی اس کاوش کا حصہ ہے جس کا مقصد وسیع البنیاد اور جامع سیاسی حل کیلئے پیش رفت کو یقینی بنانا ہے۔ طالبان کے سیاسی کمیشن کے وفد کا پاکستان کا تازہ ترین دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان تمام افغان اطراف سے کہتا ہے کہ وہ تشدد میں کمی اور سیزفائر کیلئے اقدامات اُٹھائیں۔دونوں رہنمائوں نے اس موقع پر افغان عمل میں تعاون جاری رکھنے اور دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران طالبان سیاسی کمیشن کا وفد ملا عبدالغنی برادر ہی کی سربراہی میں دوسری مرتبہ پاکستان آیا ہے۔اسی سال اگست میں بھی طالبان کے سیاسی کمیشن کے رہنماؤں نے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ اس مرتبہ طالبان سیاسی کمیشن کے وفد میں کابل حکومت کیساتھ دوحہ میں جاری امن مذاکرات کیلئے افغان طالبان کے چیف مذاکرات کار شیخ حکیم بھی اسلام آباد آنے والی ٹیم کا حصہ ہیں،جو اس امر کا عندیہ ہے کہ وفد کی گزشتہ ملاقاتوں کے مقابلے میں حالیہ دورہ اہم اور پیشرفت واعتماد کا حامل ہے ۔ہم سمجھتے ہیںکہ طالبان کا حالیہ دورہ افغانستان امن کی کوششوں کے حوالے سے خاص طور پر اہم ہے، پے درپے ملاقاتوں اور دورے اس امر پر دال ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں پیشرفت ہورہی ہے۔ یہ بھی بڑی خوش آئند تبدیلی ہے کہ ماضی میں کابل حکومت، افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان رابطوں پر اعتراض کیا کرتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ گزشتہ ادوار کے باعث حالیہ ملاقاتیں افغان حکومت کے علم میں ہوتی ہیں اورافغانستان کی طرف سے اب ان دوروں پر اطمینان کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ امن مذاکرات میں سست روی کی وجہ فریقین کی ترجیحات کا مختلف ہونا ہے۔ افغان حکومت جنگ بندی پر زور دیتی ہے جبکہ طالبان قیادت شریعت کا نفاذ، جنگی قیدیوں کی واپسی اور آئین میں تبدیلی کی بات کرتی ہے۔ اگرچہ بین الافغان مذاکرات میںفریقین کے درمیان بعد اور دوری کا عنصر کافی زیادہ اور خلیج گہری ہے لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ فریقین مذاکرات کے ذریعے اور مل بیٹھ کر تنازعات کا حل نکالنے کیلئے کوشاں ہے جس سے اس امر کی توقع ہے کہ سخت اختلافات کے باوجود کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اس وقت تک بالواسطہ سلسلہ جنبانی ہورہی ہے اور براہ راست معاملت ابھی شروع ہونی ہے، ایسے میں درمیانی رابطہ کاروں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان طالبان اور افغان حکومت میں رابطہ کاری کی پوری طرح سعی میں ہے، جغرافیائی وثقافتی ومذہبی حوالوں کے علاوہ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کے باعث پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کی رابطہ کاری میں وزن اور اثر ورسوخ کے باعث فریقین پاکستان کے مشوروں پر فطری طور پر دھیان دیں گے۔ بار بار مختلف وفود کی پاکستان آمد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس سے توقع ہے کہ بالآخر وہ مرحلہ آئے گا جب بین الافغان مذاکرات کے فریق آمنے سامنے بیٹھ کر اپنے معاملات طے کریں اور افغانستان میں مستقل اور مستحکم قیام امن کا سب کیلئے قابل قبول حل نکل آئے۔ اگرچہ ان تمام کوششوں کے باوجود افغانستان میں تشدد میں کمی نہیں آئی گزشتہ روز ہی افغانستان میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کو نشانہ بنایا گیا تشدد کے واقعات کا بھی تدارک نہیں ہوا ہے لیکن توقع ہے کہ جیسے جیسے معاملات آگے بڑھیں گے افغانستان میں ایک دوسرے کو جگہ دینے اور مفاہمت کی راہ ہموار ہوگی اور بالآخر مذاکرات ہی کے ذریعے افغانستان کے مسئلے کا حل نکل آئے گا۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت