وزیر داخلہ کا پیغام یا کچھ اور

وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشیداحمد نے کہا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تحریک پروزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ رابطے میں ہیں،31جنوری سے پہلے پہلے درمیانی راستہ نکل آئے گا۔ وزیراعظم استعفیٰ دیں گے نہ اپوزیشن مستعفی ہو گی۔ وفاقی وزیر داخلہ کے بیان سے تو سیاست میں مداخلت کی تصدیق ہوتی ہے گوکہ یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں بلکہ نوشتہ دیوار ہے لیکن ایک ذمہ دار حکومتی شخصیت کا یوں کھلے بندوں اس طرح کا بیان اگر زبان پھسلنے کے باعث نہیں بلکہ سوچا سمجھا بیان ہے اور وہ اس پر قائم رہتے ہیں تو یہ تمام سیاستدانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ جن کا نام لیا گیا ہے ان کیلئے بھی خوشگوار نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے کھلے عام حزب اختلاف کو پیغام دیا ہے کہ درمیانی راہ نکالنے کیلئے کام ہورہا ہے، اگر یہی پیغام مقصود تھا تو فصیح اللسان شیخ رشید کسی اور انداز سے بتاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مشکل بات یہ ہے کہ یہاں جس طرح انگشت سے اشارہ کیا جاتا ہے اس انگشت نمائی کا مقصد اعتراض کی بجائے خود کی طرف متوجہ کرنے کا عمل ہوتا ہے اور یہ بارہا ثابت بھی ہوچکا ہے یہی وہ عنصر ہے جس کے باعث ملکی سیاست ہر وقت دبائو کا شکار اور حکومتوں کو حقیقی اقتدار نہ ملنے کا شکوہ رہتا ہے، جب تک یہ صورتحال رہے گی اس وقت تک کسی خیر کی توقع نہیں۔ سیاستدانوں اور جمہوریت کو اب بالغ اور سنجیدہ ہونا چاہئے اور اپنے مسائل واختلافات کا حل خود ہی مل بیٹھ کر نکالنا چاہئے یا پھر شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر اتفاق کر کے یہ تنازعہ طے کرنا چاہئے، عوام آخر کب تک یہ کھیل ہوتا دیکھیں گے اور سیاستدان اسی عطار کے لڑکے سے دوالینے سے کب انکار کرنے کے قابل ہوں گے۔ سیاسی تنازعات کا حل اگر اسی طرح سے ہی نکالنا ہے اور معاملات اگر اسی طرح ہی طے کرنے ہیں تو پھر واویلا در واویلا کیوں اور کب تک۔
احسن کارکردگی ‘خود احتسابی کی بھی ضرورت
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے صوبائی حکومت کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ اور اُس کی پوری ٹیم کی کوششوں پر مکمل اطمینان کا اظہاراور اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے مزید بہتر انداز میں کام کرنے کی ہدایت وزیراعلیٰ کیلئے یقینا اطمینان کا لمحہ ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کا دیگر صوبوں سے تقابل کیا جائے تو بہتری ضرور نظر آئے گی لیکن ابھی منزل بہت دور اور طویل ،جدوجہد کی ضرورت اس لئے ہے کہ صوبے کے عوام کو ابھی بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم اگر صوبے کے وفاق کے ذمہ حقوق کی ادائیگی اور صوبے کو وسائل دینے کی یقین دہانی کراتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ بہرحال بعض اوقات صوبے میں ایسے معاملات پیش آتے ہیں جس سے اچھی حکمرانی پر سوال اُٹھتے ہیں، عامر تہکالی کیساتھ پولیس کی زیادتی کا واقعہ ہو یا خیبرٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے جامع تحقیقات،ذمہ داری کا تعین اور ذمہ دارعناصر کو قرار واقعی سزا دے کر عوام کی تشفی اور آئندہ کیلئے اس طرح کی غفلت اور زیادتی کے ممکنہ تدارک کے جو تقاضے ہیں وہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو وزیراعظم کی شاباش پر مسرور ہونے کیساتھ ساتھ خود احتسابی پر بھی پوری توجہ دینی چاہئے تاکہ کارکردگی مزید بہتر ہو اور عوامی سطح پر بھی اس کا اعتراف ہو۔
ہراسانی کی شکایات میں اضافہ
اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ کام کے مقامات پر خواتین کی ہراسانی کے واقعات معمول بن گئے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ الزامات کی صداقت کو ثابت کرنے کے مرحلے پر انکوائری ٹیم کی پوری ہمدردی کے باوجود ہراسانی کی شکایت کرنے والی خواتین الزام ثابت نہیں کر پاتیں جس سے ہراسانی پر تلے دیگر مردوں کی ہمت بندھ جاتی ہے۔ جہاںمختلف این جی اوز بالخصوص اور سرکاری ادارے بالعموم ہراسانی کے واقعات کی روک تھام اورالزام پر سزا کیلئے خواتین ہمدردی کے جذبات کیساتھ کوشاں ہیں وہاں ہراسانی کے الزامات پر سزا ملنے کے امکان کو بڑھانے کیلئے اسے ثابت کرنے اور شکایتی خواتین کو کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے کیلئے تربیت دینے اور رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس امر پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ ہراسانی کے الزامات کی کوئی اور پس منظر نہ ہو، تاکہ ہراسانی کے جس واقعے کی بھی شکایت کی جائے وہ ٹھوس اور مبنی بر شواہد ہوں اور اس کے کوئی اور مقاصد نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے