معاشرے کا ٹریفک جام

میں اپنے ذہن میں ایک ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی ہوں۔ میرے اردگرد بھنبھناتی، غراتی، زور لگاتی گاڑیوں کا شور ہے۔ اس شور میں تلملاہٹ اور بے بسی کا ایک عجب احساس، یہ احساس مجھے کچھ نہیں کرنے دیتا، وقت کو آگے گزرنے نہیں دیتا،لگتا ہے جیسے وقت بھی اپنے بھنور اُٹھائے میرے ساتھ، اسی گاڑی میں پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا ہے۔ میں پبلک ویو مررسے دیکھوں تو اس کے چہرے پر بھی وہی اُکتا ہٹ، وہی تھکن ہے جو مجھے اپنے پورے جسم میں محسوس ہو رہی ہے۔ یہ اردگرد ایک دوسرے سے اُلجھی گاڑیاں اس وقت کے جسم کے روئیں روئیں سے اُبھرتی یادیں ہیں،کچھ خوبصورت چمچماتی تقریباً مسکراتی اور کچھ دھندلی تھکی ہوئی، کچھ غراتی اپنی ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے میں سالوں کی جست لگاتی ہوں۔ سامنے ونڈوسکرین کے پار منظر بدل جاتے ہیں اور پھر ایک زوردار ہارن کی آواز۔۔۔ وہ منظر سامنے سے پگھل کر سڑک پر جاگرتا ہے اور میں ذرا ذرا سرکتی، سسکتی اس کے اوپر گزر کر اسے روندتی ہوئی آگے بڑھنے کی کوشش میں پھر بھی اپنی ہی جگہ پر موجود ہوں۔ میں نہیںجانتی کہ یہ سب کیا ہورہا ہے، کیوںہورہا ہے اور اس سب کو ہونے کی اس طرح ہوتے چلے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن یہ میرے رب کے فیصلے ہیں اور ان فیصلوں سے نظر چرانا ممکن ہی نہیں۔ یہ اُلجھن بھی عجیب ہے کہ یہ گاڑیاں ایک دوسرے کیساتھ یوں پھنسی کھڑی ہیں جیسے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی مقصد حیات ہی نہ ہو۔ کچھ غصے میں ہیں، ایک دوسرے کے آمنے سامنے ایک دوسرے پر غرا رہی ہیں،کچھ نظر بچا کر دائیں بائیں گزرنے کی جستجو میں پتنگوں کی ڈوروں کی طرح اُلجھ گئی ہیں۔ وہ جتنا ایک دوسرے سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی ہیں اور اُلجھی جاتی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو اس منظر میں شامل ہیں لیکن بے حس اور خاموش کھڑی ہیں۔ راستے کھلنے کی منتظر بس اپنی ہی راہوں پر خود گامزن ہو جانے کی خواہش میں غلطاں۔ انہیںاس سے کوئی علاقہ نہیں کہ دراصل گاڑیوں کی اس پھنساوٹ کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ نظام کام نہیں کر رہا یا گاڑیاں چلانے والے نظام کی خود بھی دھجیاں اُڑا کر، ہر ایک کو مشقت میں ڈال رہے ہیں اور سچ پوچھئے تو اس سوال کا کبھی جواب ہوتا بھی نہیں، معاشرے میں ایک عمومی بگاڑ پیدا ہو جائے تو یہ سمجھ آنا بند ہو جاتا ہے کہ اصل غلطی کس کی ہے اور بگاڑ کی اصل وجہ کون ہے؟ ایک طویل عرصے تک ہم اس بحث میں اُلجھے بھی تو رہے ہیں۔ سالہا سال ہم نے اپنی پریشانیوں کی وجہ کسی اور کو قرار دیا۔ جس وقت قرار دینا شروع کیا اس وقت عین ممکن ہے کہ وجہ وہی رہی ہو۔ لیکن بگاڑ کی مثال کسی معاشرے میں ایسی ہی ہے کہ ایک صاف پانی کے تالاب میں گندے پانی کا نکاس بن جائے یا پاس سے گزرتی کوئی گندے پانی کی لائن عین اس جگہ سے رسنے لگے جہاں سے اس کا صاف پانی میں چلنا بہت آسان ہو اور پھر لوگ یہ تو کہیں، شور مچائیں کہ گندا پانی صاف پانی میں مل کر اسے گندا کر رہا ہے لیکن اس کا سدباب نہ کریں۔ کچھ عرصے میں گندا پانی اس حد تک صاف پانی میں مل جائے کہ پھر صاف پانی کے تالاب کی جگہ گندے پانی کا ایک جوہڑ ہی دکھائی دے، سچ مانئے کچھ ایسا ہی حال ہمارے معاشرے کا بھی ہو گیا ہے۔ بد عنوانی کا گندا پانی رس رس کر اس معاشرے کے تالاب میں داخل ہونا شروع ہوا، لوگوں نے شور مچایا لیکن کوئی سدباب نہ کیا، یہ وہ وقت تھا جب رشوت لینے والے کو بیوروکریسی میں برا سمجھا جاتا تھا، اس سے تعلق میں احتیاط برتی جاتی تھی۔ لوگ ازراہ مذاق ان کے نام رکھ دیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے والد اور ان کے دوستوں سے کئی ایسی باتیں سُنیں کہ فلاں تو بلیڈ ہے، فلاں قینچی ہے، فلاں اُسترا ہے۔ ان لوگوں سے احتیاط بھی برتی جاتی تھی اور انہیں اچھا نہ سمجھا جاتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ کمیشن خوروں کیساتھ لوگ ملتے جاتے ہیں۔ بدعنوانوں کو راستہ دکھانے اور ان کی جی حضوری کرنے میں لوگ کسر نہیں اُٹھا رکھتے۔ اب ہر سطح کا آدمی اپنا اپنا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور پھر ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ اس حکومت نے کیا کیا؟ کوئی بھی حکومت کیا کرے گی، میں ایک طویل عرصے سے آپ سے یہی سوال کرتی چلی آرہی ہوں۔ آج بھی کر رہی ہوں کہ آخر حکومتیں کیا کیا کرتی ہیں۔ اس وقت جب لوگ ایماندار تھے، جمہوریت کے نام پر معاشرے کا گندا پانی، صاف پانی کے تالاب میں رستا رہا۔ ان لوگوں نے اپنی بدعنوانیوں کو سہارا دینے کو لوگوں کو بہکایا، کسی کو ڈرایا، کسی کو ساتھ ملایا، آخرکار صاف پانی کا رنگ اور ہیئت دونوں ہی بدل گئے اور اب یہ عالم ہے کہ سڑی ہوئی بساندھ اس جوہڑ سے اُٹھتی رہی ہے اور مکھیاں بھی بھنبھناتی ہیں۔ ایسے میں ایک آدمی کی فوج کیا کر سکتی ہے۔ وزیراعظم کیساتھ اسی معاشرے کے لوگ ہیں، کچھ کم گلے سڑے، کچھ کم بدعنوان اور جو بدعنوان نہیں ہیں وہ نااہل ہیں اور یقین مانئے ایسے معاشرے جہاں اس قدر بگاڑ ہو جیسا ہمارے معاشرے میں در آیا ہے نااہلی، بدعنوانی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس معاشرے میں آخر کیا ہوسکے گا، کیونکر ہو سکے گا۔ تبدیلی تو تب آتی جب ہم اور آپ بدل جاتے اور ادھر تو نہ تم بدلے نہ ہم بدلے، نہ دل کی آرزو بدلی تو قسمت کیسے بدل جائیں، دن کیسے بدل جائیں۔ سو ہم اس ٹریفک جام میں پھنسے ہیں، غراتے ہیں، کسمساتے ہیں، تلملاتے ہیں لیکن اپنی جگہ سے ہل نہیں پاتے۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے