باسمتی چاول کے ملکیتی حقوق پر بھارتی دعویٰ

پاکستان کے مشرقی اور پنجاب کے سینٹرل اضلاع گجرات’ سیالکوٹ’ ڈسکہ’ نارووال’ حافظ آباد’ منڈی بہاؤالدین سمیت پنجاب کے دیگر متعدد اضلاع میں دنیا کا بہترین باسمتی چاول پیدا ہوتا ہے۔ باسمتی چاول کی پاکستان میں نہ صرف وسیع پیمانے پر پیداوار ہوتی ہے بلکہ منفرد ذائقے اور بہترین خوشبو کی وجہ سے اسے بھارتی باسمتی چاول پر فوقیت حاصل ہے’ بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان کے آم’ کیلا اور مالٹے کو منفرد ذائقے کی وجہ سے پوری دنیا میں پسند کیا جاتا ہے’ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا چاول بھارت اپنے نام سے فروخت کرنا چاہتا ہے تاکہ اس سے کثیر زرمبادلہ حاصل کیا جا سکے اور باسمتی چاول کو بھارتی پہچان کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ اس مقصد کیلئے بھارت نے یورپی یونین کی انٹی لیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے ریگولیشن کے آرٹیکل 50اور کونسل آن کوالٹی اسکیم فار ایگریکلچر پروڈکٹس کے تحت باسمتی چاولوں کیلئے جی آئی ٹیگ کیلئے درخواست دائر کی تھی۔ بھارت نے انٹی لیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او) میں اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ باسمتی چاول بھارت کی جغرافیائی نشانی اور بھارت کی پیداوار ہے حالانکہ یورپی ریگولیشن2006ء کے مطابق باسمتی چاول اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں کی پیداوار کے طور پر رجسٹرڈ ہے’ بھارت کی جانب سے باسمتی چاول پر ملکیتی حقوق کیلئے درخواست دائر کئے جانے کے بعد پاکستان نے22دسمبر کو یورپی یونین میں باسمتی چاول کیلئے جی آئی ٹیگ کے حقوق حاصل کرنے کی بھارتی درخواست کی مخالفت کا فیصلہ کیا اور تمام حقائق کیساتھ یورپی یونین میں درخواست دائر کی’ پاکستان کے وزیر تجارت کے مطابق بھارت باسمتی چاول کا65فیصد برآمد کرتا ہے جبکہ باقی35فیصد پاکستان میں پیدا ہوتا ہے اور پاکستان اپنے طور پر چین، کینیا، یورپی یونین اور عرب ممالک سمیت دنیا بھر میں برآمد کرتا ہے لیکن بھارت باسمتی چاول کے سو فیصد ملکیتی حقوق کا دعویٰ کر کے اس کا حصول چاہتا ہے تاکہ نقب زنی سے پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کیا جا سکے کیونکہ جغرافیائی اشارے کا تحفظ کسی بھی ملک کو برآمدات بڑھانے’ زرعی ودیہی ترقی میں معاونت’ ہنرمندوں اور زرعی مصنوعات پیدا کرنے والوں کو روزگار فراہم کرتا ہے’ واضح رہے جی آئی قانون کے تحت مقامی مصنوعات کی فروخت سے عالمی سطح پر پہچان اور زرِمبادلہ حاصل کرنا ہے’ اس قانون کے تحت چند ایک پاکستان کی مصنوعات فروخت ہو رہی ہیں’ مثلاً پشاوری چپل’ نیلے نقش والے ملتانی برتن’ ہنزہ کی خوبانی’ ہالہ کی اجرک’ قصوری میتھی’ چمن کے انگور اور تربت کی کھجوروں کو اسی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے جبکہ کھالوں کی صنعت’ کھیلوں کا سامان اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر متعدد ایسی مصنوعات جو ہیں تو پاکستان کی لیکن عالمی منڈیوں میں پاکستان کی مصنوعات کے طور پر فروخت نہیں ہو رہی ہیں’ اس لئے پاکستان کو جس قدر ان مصنوعات پر مالی فوائد حاصل ہونے چاہئے تھے وہ فوائد حاصل نہیں ہو رہے۔ اس کی بنیادی وجہ انٹی لیکچوئل پراپرٹی شعور سے عدم آگہی ہے۔ باسمتی چاول پر حق ملکیت کے بھارتی دعوے کیخلاف اگرچہ پاکستان نے یورپی یونین سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے تاہم بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کام ہم بہت پہلے نہیں کر سکتے تھے؟بھارت نے باسمتی چاول کے ملکیتی حقوق کیلئے یورپی یونین میں جی آئی قانون کے تحت رجوع کیا ہے’ کیونکہ اس نے بہت پہلے اپنے ہاں جی آئی قانون کا نفاذ کر لیا تھا جبکہ پاکستان نے رواں سال مارچ میں مذکورہ قوانین کو منظور کیا ہے اس کے نفاذ کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ اگر بھارت ملکیتی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ پاکستان پر پابندی عائد کر دیگا’ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان لاکھوں ٹن باسمتی چاول چین سمیت یورپی یونین کو برآمد کرتا ہے۔ یورپی یونین میں باسمتی چاول کے ملکیتی حقوق کے بھارتی دعویٰ کے جواب میں پاکستان نے بروقت درخواست دیدی ہے’ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس کیس کا دفاع کیسے کرتا ہے’ جہاں تک ہمارا خیال ہے بھارت شاطرانہ چالوں سے باز نہیں آئے گا’ اس نے باسمتی چاولوں پر ملکیتی حقوق کا دعویٰ کرنے سے قبل ہی جال بچھا رکھا ہوگا’ بھارت، پاکستان کیساتھ متنازعہ مسائل کیلئے عام طور پر اپنے تعلقات اور سفارتکاری کو بروئے کار لاتا ہے’ ہمیں بھی اس طرف توجہ دیکر دوست ممالک کی حمایت حاصل کرنی ہوگی تاکہ بروقت اقدامات سے بھارت کے منصوبوں کو خاک میں ملایا جاسکے۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے