رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

اچھی بات خوشبو کی مانند ہوتی ہے وہ جو ضیاء جالندھری نے کہا تھا کہ رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے تو بڑے دنوں بعد ایسی ہی ایک رنگوں میں گندھی ہوئی بات ایک اخباری خبر کی وساطت سے پڑھنے کو ملی جس میں سے خوشبو اُمڈ اُمڈ کر آرہی ہے یا ر طرحدار مرحوم سجاد بابر نے بھی تو کہا تھا کہ
کرن بھی اُترے تو آہٹ سنائی دیتی ہے
میںکیا کروں مجھے خوشبو دکھائی دیتی ہے
خوشبوئوں سے مزین یہ بات وزیراعلیٰ کے معاون برائے اطلاعات کامران بنگش نے کہی ہے، گزشتہ روز آرکائیوز لائبریری کے دورے کے دوران انہوں نے کہا کہ عوامی لائبریریاں قائم کر نے کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔ اس پر یہ کہنا تو بنتا ہے کہ ”موگیمبو خوش ہوا”۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں جگہ جگہ آنہ لائبریریاں قائم تھیں اور جو لوگ کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے وہ اپنے مطالعے کا شوق پورا کرنے کیلئے ان لائبریریوں سے اپنے ذوق کے مطابق کرایہ پر کتابیں حاصل کرتے۔ کم صفحات والی کتابیں ایک ہی نشست میں ختم کر کے واپس کرکے ایک آنہ کرایہ ادا کر تے البتہ تاریخی کتابیں یا زیادہ ضخیم ناول وغیرہ دو یا تین دن بعد واپس کر دیتے۔ ان لائبریریوں کے علاوہ سرکاری سطح پر یا پھر بعض ادارے بھی صرف اپنے رجسٹرڈ ممبران کو ہی کتابیں فراہم کرتے۔ مثلاً ایک تو اسلامیہ کالج، پشاور یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں سے طلبہ ہی کو کتابیں جاری کی جاتیں جبکہ پشاور میونسپلٹی کی جو لائبریری شہر کی قدیم لائبریریوں میں اہم مقام کی حامل تھی جس کے بارے میںاب یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ”ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے” کیونکہ میونسپلٹی سے میونسپل کارپوریشن اور ازاں بعد سٹی دسٹرکٹ گورنمنٹ کے تحت اس بے چاری کا جو حشر کیا گیا اس پر ہمارے مرحوم دوست شین شوکت نے بطور انچارچ لائبریرین جو محنت کی تھی عوامی نمائندگی کے ”ان پڑھ اور جاہل” نمائندوں کی عدم توجہی نے اسے قصہ پارینہ بنا دیا ہے اور اس لائبریری میں پڑی ہوئی کروڑوں مالیت کی اہم کتابیں اب خدا جانے کس سلوک کی مستحق ہو چکی ہیں، اس لئے تو راقم بار بار مختلف مواقع پر اپنے کالم میں اس ”مرحومہ” لائبریری کے نوحے پڑھ چکا ہے، تو کیا ہی اچھا ہو کہ کامران بنگش نئی لائبریریاں قائم کرنے سے پہلے اس ”راندۂ درگاہ” لائبریری کا حال دریافت کر کے اس کی بحالی اور اسے بہترین عمارت میں منتقل کر کے شین شوکت کی طرح لائبریری سائنس کے گریجویٹ کسی پڑھے لکھے شخص کی نگرانی میں دیکر اس کو مفاد عامہ کے قابل بنائیں۔ یہاں ایک واقعہ مجھے یاد آرہا ہے اسے آپ کیساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، مرحوم مولانا فضل معبود اُردو سائنس بورڈ پشاور شاخ کے انچارج ہوا کرتے تھے ہم سب دوست اس کے چھوٹے سے ہال میں حلقہ ارباب ذوق کی ہفتہ وار نشستیں منعقد کرنے جایا کرتے تھے۔ مولانا صاحب بھی ان نشستوں میں شرکت کرتے تھے، ایک بار میں وہاں گیا تو مرحوم نے مجھ سے غالباً قصہ چہاردرویش کے بارے میں پوچھا کہ اس کا نسخہ میرے پاس ہے میں نے ہاں میں جواب دیا، تو انہوں نے وہ کتاب چند روز کیلئے عاریتاً مانگ لی۔ اگلے روز میں نے کتاب لاکر دی، لگ بھگ ایک ڈیڑھ ہفتے بعد میری کتاب واپس کرتے ہوئے انہوں نے اُردو سائنس بورڈ کی ملکیت اسی کتاب کا نسخہ بھی مجھے دکھایا، جسے کسی کتاب دشمن نے اس کے لاتعداد صفحات کے کونے بلیڈ سے کاٹ کر اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا اور مولانا صاحب نے نہایت ہی عرق ریزی سے میرے دئیے ہوئے نسخے کی مدد سے کاٹے ہوئے ٹکڑوں کے الفاظ دوبارہ لکھ کر اور انہیں کتاب کیساتھ جوڑ کر اسے دوبارہ کارآمد بنا دیا تھا، یہ کتابوں سے محبت اور ان کی قدر کرنے کا ایک ایسا واقعہ ہے جو آج کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آنہ لائبریریاں غالباً اس وقت معدومیت کا شکار ہوئیں جب وی سی آر نے کتاب کی جگہ لی اور لوگ کتابیں چھوڑ کر بھارتی فلموں کے کیسٹ کرائے پر لاکر لطف اندوز ہونے لگے، تب میں نے شہر کی کئی آنہ لائبریریوں کے شیلفوں میں کتابوں کی جگہ بھارتی فلموں کے کیسٹ دیکھے۔ ظاہر ہے کتاب کا کرایہ ایک آنہ جبکہ فلمی کیسٹ کا کرایہ کئی گنا زیادہ تھا اور جن کے پاس وی سی آر بھی نہیں ہوتے تھے تو کرایہ مزید بڑھ جاتا تھا۔ تب لائبریری والوں نے بھی زیادہ آمدن کو ترجیح دیتے ہوئے کتابوں سے جان چھڑانا شروع کردی تھی، اوپر سے امریکن سنٹر اور برٹش لائبریری کی عمارتوں پر بہانے بہانے سے یلغار کر کے ان کو توڑ پھوڑ کر ان دونوں اداروں کو بھی اپنا بوریا بستر گول کرنے پر ہم نے مجبور کردیا تھا حالانکہ ان دونوں لائبریریوں نے میڈیکل، انجینئرنگ، آرکیالوجی اور دیگر شعبوں کے طالبعلموں کو مہنگی ترین تدریسی کتب کی فراہمی ارزاں کر رکھی تھی جن کی مدد سے ہمارے ہزاروں طالبعلم ہر سال استفادہ کر کے ڈگریاں حاصل کرتے رہے، بہرحال لائبریوں کے قیام کی سوچ خوش آئند ہے بقول وحشت کلکتوی
عاشقی شیوہ لڑکپن سے ہے اپنا ناصح
کیا کروں میں کہ یہی کام کچھ آتا ہے مجھے

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے