گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کا مستقل مسئلہ

صوبائی دارالحکومت پشاور کے بعض علاقوں میں گیس کے کم پریشر کے مسئلے کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے ایس این جی پی ایل حکام کو یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے ضروری اقدامات اُٹھانے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا گیس کا پیداواری صوبہ ہے، یہاں پر پیدا ہونے والی گیس پر پہلا حق اس صوبے کے عوام کا ہے، لہٰذا یہاںکے صارفین کو گیس کی بلاتعطل فراہمی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ دریں اثناء ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق 125ملین روپے کی لاگت سے مکمل کیا جانے والا نئی مین سوئی گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی پشاور کو گیس کے کم پریشر اور لوڈشیڈنگ سے نجات نہ دلا سکا۔ گزشتہ ہفتہ پشاور کو 12انچ، 16کلو میٹر گیس پائپ لائن مین پائپ سے منسلک کرنے کے بعد دعویٰ کیا گیا تھا کہ گیس کے کم پریشر اور لوڈشیڈنگ کے مسئلہ کا حل تلاش کر لیا گیا ہے لیکن بجائے بہتری آنے کے شہر کے زیادہ تر علاقوں میں گیس کے کم پریشر اور لوڈشیڈنگ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پشاور میں سوئی گیس لوڈشیڈنگ اور کم پریشر سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، زیادہ تر علاقوں میں سردیوں کے آغا ز کیساتھ سوئی گیس کم پریشر اور بعد میں طویل دورانئے کی سوئی گیس لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کے معاملات زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ایس این جی پی ایل حکام کی وزیراعلیٰ کو بریفنگ میں یقین دہانی کے بعد وزیراعلیٰ نے بھی شہریوں کو گیس کی لوڈشیڈنگ نہ ہونے اور کم پریشر کا مسئلہ حل ہونے کا مژدہ سنایا تھا لیکن صورتحال مختلف نکلی۔ سردیوں میں گیس کا کم پریشر اور لوڈشیڈنگ ناگزیر امر ہے جسے تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں لیکن ایس این جی پی ایل کے حکام بجائے حکام اور عوام کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کرتے اس مناسبت سے اقدامات کی طفل تسلیاں دے رہے ہیں جو حکام اور عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اس طرح کا فعل ناقابل برداشت اور غیراخلاقی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بڑھتی آبادی اور قانونی وغیرقانونی گیس کنکشنز دئیے جانے کی روش گیس کی کمی اور مسائل کا باعث ہے۔ گیس پائپ لائنز میں جتنی گیس شامل کی جاتی ہے اس سے زیادہ کنکشنز دئیے جاتے ہیں۔ اسی ہفتے ایک بڑی آبادی کو کنکشن دینے کی تصویر اخبارات میں شائع ہوچکی ہے جب تک صارفین کی ضروریات اور گیس کی فراہمی میں توازن نہیں رکھا جائے گا گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کا مسئلہ کبھی حل نہ ہوگا، ہمارے تئیں اولاً موجودہ صارفین کی تعداد اور گیس سپلائی کی صورتحال کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس کے مطابق حکمت عملی وضع ہونی چاہئے، کم ازکم سردیوں میں نئے کنکشنز پر پابندی ہونی چاہئے۔ ایس این جی پی ایل صوبائی حکومت کی مدد سے اگر مضافات میں گیس چوری کرنے والوں کیخلاف بھرپور کارروائی یقینی بنائے تو گھریلو صارفین کا بھلا ہوگا اور کمپنی کے خسارے میں بھی کمی آئے گی۔ ہاؤسنگ سکیمز کو نئے کنکشز اس وقت دئیے جائیں جب کوئی منصوبہ مکمل ہو اور لائن میں مزید گیس شامل کی جائے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض علاقوں میں گیس پریشر اور لوڈشیڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں جبکہ بعض علاقوں میں لوڈشیڈنگ تو کیا سرے سے سردیوں میں گیس آتی ہی نہیں، یہ ناانصافی ہے۔ کمپنی کو ایسا فارمولہ وضع کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے کہ کم ازکم گھریلوں صارفین کو دن میں کسی ایک وقت اتنی گیس ملے کہ وہ کھانا پکا سکیں اور باقی صبح وشام کھانا گرم کرنے کے بقدر بھی گیس ملے تو شہریوں کو شکایت نہ ہوگی۔ صورتحال دیکھ کر یہ تجویز نامناسب نہیں لگتی کہ گیس ہیٹر اور گیزر چلانے پر پابندی عائد کی جائے اور جن کے گھروں کا گیس بل مخصوص سلیب سے زیادہ ہو ان پر جرمانہ عائد کرنے کا قانون بنایا جائے، فی الوقت ممکن ہے اس تجویز سے اتفاق ممکن نہ ہو لیکن جس طرح کی صورتحال بن چکی ہے اور سال بہ سال آبادی میں اضافے سے ایندھن کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو رہی ہیں ایک وقت آئے گا کہ اس پر مجبور ہونا پڑسکتا ہے۔ شمسی توانائی کے حصول اور شمسی توانائی سے کھانا پکانے اور پانی گرم کرنے کی ترغیب اور شمسی توانائی کے آلات کو قسطوں پر فراہمی اور عوام کو سولر پینلز لگانے کے فوائد وآسانیوں سے آگاہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ایل پی جی گیس کی قیمتوں میں رعایت اور اس کی فراہمی کے ذریعے شہروں وقصبات میں شہریوں کی ضروریات جبکہ پہاڑی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی کی روک تھام کیلئے اس پر خاص کر توجہ کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت