مشرقیات

اللہ کے رسول ۖ کے ایک صحابی سید نا ربیع بن زیادا لحارثی مجاہدین کے عظیم لشکر کے ساتھ شام کو فتح کرنے کے بعد ایران پھر افغانستان اور وہاں سے ثمر قند اوربخارا کو فتح کرنے میں مصروف تھے۔ان کا نہایت وفادار غلام فروخ بھی ان کے ساتھ شریک جہاد تھا ۔ جس کو ربیع بن زیاد نے آزادی کا تحفہ بطور انعام عطا کیا۔ آزادی ملنے کے بعد فروخ نے کمانڈر انچیف سے اجازت طلب کی۔ گھر آکر انہوں نے ایک نیک سیرت ذہین وفطین خاتون سہیلہ سے نکاح کیا۔ ایک دن فروخ مسجد میں تھے کہ کسی عالم کی جہاد سے متعلق گفتگو سنی ۔ اسی وقت فیصلہ کیا جہاد پر جانے کا ۔ بیوی کو 30ہزار دینار دئیے کہ خود پر اور نومولود پر خرچ کرے اور جو بچ جائے وہ سنبھال کر رکھے۔ سہیلہ نے اپنے بیٹے ربیعہ پر خوب توجہ اور سارے پیسے اس کی تعلیم پر خرچ کر دئیے اور وہ بھی ذہین نکلا۔ اور اپنے وقت کہ بڑے عالم اورفقیہہ بنے۔ حضرت فروخ جب جہاد پر گئے تو ایسے مصروف ہوئے کہ جہاد کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ 27 برس گزر گئے۔ بالآخر وہ دن آپہنچا کہ جب انہوںنے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ وہ اس شان سے مدینہ میں داخل ہوئے کہ گھوڑے پر سوار، ہاتھ میں نیزہ پکڑے ہوئے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ آگے بڑھے تو ایک نوجوان نے ان کا راستہ روک کر کہا: اوخدا کے دشمن ! تم کون ہو اور بغیر اجازت کیسے میرے گھر میں داخل ہو رہے ہو؟ حضرت فروخ کہنے لگے۔ خدا کادشمن میں نہیں تم ہو کہ میرے گھر میں میری بیوی کے پاس ٹھہرے ہوئے ہو؟ گھوڑے سے کودے اور نوجوان کا گریبان پکڑ لیا۔ان کی بیوی نے اپنے خاوند کی آواز پہچان لی اور اندر سے نکل آئیں۔ انہوںنے کہا: ارے!یہ تو میرے خاوند محترم ہیں اوریہ ربیعہ ان کا بیٹا ہے ۔ جب یہ جہاد پر گئے تھے تو ربیعہ ان کے جانے چند مہینے بعد پیدا ہواتھا۔ انہوںنے تو اپنا بیٹا دیکھا بھی نہیں۔اب جب دونوں کو معلوم ہوا کہ وہ باپ بیٹا ہیں۔ تو ایک دوسرے کو گلے لگالیا اور ملاقات کی خوشی میں بے اختیار رونے لگے۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد حضرت فروخ نے اپنی بیوی سے کہا: تمہیں یاد ہے کہ تمہیں سفر پر جانے سے پہلے کچھ مال دے گیاتھا۔ وہ کدھر ہے اور کہاں خرچ کیا ہے ؟ان کی بیوی کہنے لگیں۔ میںنے اس مال کو محفوظ مقام پر دفن کر رکھا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد نکالوں گی۔ کچھ دیر بعد فروخ مسجد نبوی میں آئے، نماز ادا کی ، ایک طرف دیکھا کہ حلقہ درس میں بڑے بڑے علماء اور عوام بیٹھے ہیں اور ایک نوجوان انہیںد رس دے رہا ہے۔ ان کے والد فروخ کو شک ساگزرا کہ کہیں یہ میرا بیٹا ربیعہ تو نہیں ۔ انہوںنے تصدیق کے لئے حلقہ درس میںبیٹھے ایک شخص سے پوچھا۔ یہ نوجوان جو درس دے رہا ہے ، کون ہے؟ اس نے کہا !یہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن ہیں ۔ یہ سن کر حضرت فروخ کو اس قدر خوشی ہوئی جو بیان سے باہرہے۔گھر واپس آکر بیوی سے فروخ کہنے لگے۔ کہ جو مال تمہارے پاس رکھوا یا تھاخدا کی قسم ! تم نے اس مال کو ضائع نہیں کیا۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے