اپنے سچ کے ساتھ زندہ رہنا

ایک وقت تھا جب ہمارے چھاتہ بردار سیاپا فروش روزانہ رات کو زرداری حکومت ختم کر کے سوتے تھے مگر اگلی صبح ان پر قیامت ٹوٹ پڑتی اور وہ پھر ”یک”سے شروع کر دیتے، ان دنوں وزیر، مشیر، کرائے کے ترجمان اور ڈنگر ڈاکٹر سبھی پی ڈی ایم کو توڑ کر سوتے ہیں، لیکن صبح بیدار ہوتے ہیں تو پی ڈی ایم اپنی اصل حالت میں موجود ہوتا ہے۔ اپوزیشن کے لاہور جلسہ کے بعد سے وزیروں، مشیروں، ترجمانوں اور ڈنگر ڈاکٹر کی حالت دیکھنے والی ہے۔ اب توخیر سے اس صف میں لال حویلی والے شیخ رشید بھی شامل ہیں۔ میز پر مکا مارتے ہوئے ربش، ناٹ اٹ آل، سب گیٹ نمبر4 کی پیداوار ہیں کی تکرار کرنے والے شیخ رشید کو ان دنوں پیپلزپارٹی سے ”خدا واسطے”کی محبت ہوگئی ہے، ن سے ش نکلوانے کے راگ چھوڑ کر آج کل وہ پیپلزپارٹی کی جمہوریت پسندی اور پارلیمان دوستی کی مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ فقیر راحموں کہتے ہیں پاسباں مل گئے جیالوں کو بنی گالہ کے آستانے سے۔ فقیر راحموں کی کسی بھی بات پر خوش ہونے یا سردھننے کیلئے آپ کے پاس وقت ہے تو خوشی سے یہ کام کیجئے ہمارا سوال بہت سادہ ہے وہ یہ کہ اگر پی ڈی ایم کا 13دسمبر والا لاہور جلسہ بری طرح ناکام رہا اور اس میں تین ساڑھے تین ہزار (بقول فردوس عاشق اعوان) لوگ تھے یا سینیٹر فیصل جاوید کے بقول 20ہزار سے کم تو پھر پٹ سیاپا کیوں؟ عوام انہیں مسترد کر چکے، جلسہ گاہ خالی تھی، اوپر سے محمود اچکزئی کی تقریر جس نے کچھ لوگوں کی روزی روٹی لگوا دی ہے۔ یہی سوچ رہا ہوں پچھلے5دنوں سے کہ ایک ناکام جلسہ پر یہ رونا دھونا شور شرابہ ہے اور اگر یہ جلسہ ”حقیقت” میں کامیاب ہو جاتا تو پھر کیا ہوتا۔ فقیر راحموں کہتے ہیں ”پھر بھی کوئی نہ کوئی گیت سُر تال کیساتھ گایا جاتا”۔ سُر تال تو خیر ڈنگر ڈاکٹر کے بھی اچھے ہیں، سارا دن ٹویٹر پر بیٹھا اپوزیشن کو کوستا رہتا ہے، کوئی سوال کرو تو وفاداروں کا لشکر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے، خصوصاً مستقل مزاج سیاسی مسافروں کیلئے۔ کل جن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے آج ان کی برائیاں ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے ان سے برا کرۂ ارض پر اور کوئی نہیں۔ ایک محترم خاتون ہیں، پیپلزپارٹی کے دور میں بڑے اچھے منصب پر رہی، انہی دنوں کی بات ہے صدر آصف علی زرداری نے چند دیگر لوگوں کیساتھ ہمیں بھی ملاقات کیلئے یاد کیا۔ ایوان صدر میں جہاں ملاقاتی اور صدر زرداری آمنے سامنے تھے، ملاقات شروع ہوئے کچھ دیر ہوئی تھی کہ زرداری بولے ”آداب محفل اور روایت کیخلاف ہے لیکن اگر آپ لوگ برا نہ منائیں تو میں ٹانگ میں درد کی وجہ سے صوفے پر پالتھی مار کے بیٹھ جاؤں؟ مہمانوں کی رضامندی پر وہ اپنی خوشی کے مطابق بیٹھ گئے، تبادلہ خیال کی نشست ختم ہوئی، صدر مملکت اپنی جگہ سے اُٹھے مہمانوں کو رخصت کرنے کیلئے، اس معزز خاتون نے بھاگ کر آصف زرداری کے جوتے سیدھے کئے۔ صدر زرداری نے معاون سے کہا ”ہم روایت پسند لوگ ہیں، بہنوں اور بیٹیوں سے جوتے نہیں اُٹھواتے” آج کل وہ خاتون پیپلزپارٹی کی مخالفت اور تازہ نوکری کی نمک حلالی میں ایسے ایسے جملے بولتی اُچھالتی ہیں کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب وہ کہا کرتی تھیں میں پیپلزپارٹی چھوڑنے والی ہرگز نہیں۔ اب وہ جوتا پیش کرتی ہیں ان پر ہنسی آتی ہے۔
خیر چھوڑیں سیاست اسی کو کہتے ہیں، کامیابی کی شرط اب یہی ہے۔ نظریات، جدوجہد اور قربانیوں کے دور گئے۔خیر ہم سیاپا فروش اینڈ کمپنی کی اس حالت پر بات کر رہے تھے، درمیان میں تاریخ کا ایک واقعہ اور ایک حوالہ یاد آگیا سوچا درستگی کر دی جائے۔ گوہم تاریخ کے اُستاد ہیں نا تاریخ سدھار مہم کے علمبردار لیکن پتہ نہیں تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو جواب دینا کیوں فرض کر لیتے ہیں۔ کچھ دیر قبل ہمارے دوست بابر چودھری کہہ رہے تھے شاہ جی! آپ نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ بہاؤ کے اُلٹی سمت جانا ہے۔ عرض کیا آدمی اپنے عصری شعور کیساتھ زندہ رہے تو اچھا ہوتا ہے۔ اچھا ہم پھر سے فرض کر لیتے ہیں، پی ڈی ایم کا لاہوری جلسہ ”پٹ” گیا، یہ رونا دھونا کیوں ہے۔ فتوے، طنز اور دھمکیاں کیوں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پٹ سیاپا میں ایک وہ صاحب بھی شریک ہیں جو تحریک انصاف کے اکتوبر2011ء کے جلسہ لاہور کے بارے میں اُس وقت ایک ٹی وی چینل پر کہہ رہے تھے ”جلسہ کامیاب کروانے میں لاہور کے پوش علاقوں، ڈیفنس، ماڈل ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن اور بحریہ ٹاؤن وغیرہ کے بڑے اور اپرمڈل کلاس خاندانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ فلاں ”طبقے” نے اپنے خاندان کو پیغام بھجوایا ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسہ میں شریک ہوں۔ اب وہی صاحب پچھلے 4دنوں سے جو کچھ پی ڈی ایم کے جلسہ بارے کہہ رہے ہیں اسے سن کر ہنسی آرہی ہے لیکن فقیر راحموں کہتے ہیں شاہ جی! یہ تمہاری ہنسی ہی تمہاری ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کامیابی کی شرط اول یہ ہے کہ دنیا کیساتھ چلو اور خوش رہو۔ عین اس وقت مجھے شاہ حسین یاد آئے، کہتے ہیں ”آدمی اپنے سچ کیساتھ زندہ رہے تو زندہ رہتا ہے ورنہ زندگی اسے کھا جاتی ہے”۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے