پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور معیار تعلیم واخلاق

فلاحی حکومتوں کے بنیادی فرائض میںسے ایک یہ فریضہ ہوتا ہے کہ اپنی عوام کو لازمی سستی اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے قابل اطمینان انتظامات کرے۔ مملکت خداداد کے قیام کے مقاصد میں یہ فریضہ بدرجہ اتم شامل تھا لیکن شومئی قسمت کہ قیام پاکستان کے بعد چند برسوں کے اندر اندر اقتدار کی بھاگیں جن لوگوں کے ہاتھوں میں آئیں اُن کے ہاں تعلیم کو وہ ترجیح حاصل نہ تھی جو ہونی چاہئے تھی۔اس کا نتیجہ بہت جلد دو صورتوں میں سامنے آیا، ایک یہ کہ پاکستان کی بے ہنگم بڑھتی آبادی کے تناسب سے حکومت کے پاس سماجی نظام نہ ہونے کے سبب وسائل کم پڑتے گئے یوں ملک کی آبادی کا غریب طبقہ تعلیم سے محرومی کی طرف لڑھکنے لگا۔ آج بلامبالغہ لاکھوں بچے ہر سال سکول میں داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں بچے پرائمری اور مڈل کی سطح تک پہنچ کر سکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہزاروں بچے ہر صوبے میں میٹرک کرنے کے بعد کالج کی تعلیم سے اپنے قریبی علاقے میںکالج کی سہولیات نہ ہونے اور دور پار کے اخراجات کی سکت نہ رکھنے کے سبب محروم رہ جاتے ہیں۔ جامعات میں تو بہت کم طلبہ کو داخلہ پانا نصیب ہوتا ہے۔سرمایہ کاروں نے ملکی تعلیم کے یہ معاملات دیکھ کر حکومت میں موجود اپنے کارندوں کے ذریعے تعلیم کو پرائیویٹ سیکٹر میں لانے کے مشورے اور منصوبے بنا کر لائے گئے اور آج پورے ملک میں پبلک تعلیمی اداروں کے سنگ بہ سنگ پرائمری سکولوں سے لیکر بڑی بڑی جامعات تک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کھڑے ہیں اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے بنانا بذات خود بہت اہم اور بڑا کام ہے اور یقینا ملک وقوم کی مدد اور حکومت کا ہاتھ بٹانا ہے لیکن اس کے خوشگوار نتائج تب آتے جب پرائیویٹ تعلیمی ادارے واقعی ایسے لوگوں کے بنائے اور قائم کے گئے ہوتے جن کا تعلیم سے واقعی کوئی گہرا اور پرخلوص تعلق ہوتا لیکن یہاں تو معاملہ یوں ہے کہ جب سرمایہ کاروں نے دیکھا کہ حکومت تعلیم کے میدان میں عوام کو کماحقہ سہولیات دینے سے قاصر ہے تواُنہوں نے اس کو بھی سرمایہ کاری کا ایک بہترین شعبہ سمجھا اور اپنی دولت کا ایک حصہ اس میں لگایا۔ بھلا ہوایچ ای سی کا کہ تعلیم سے بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے ایک طرف پی ایچ ڈی کیلئے سکالر شپ اور لیپ ٹاپ سکیم پر اربوں لٹائے اور دوسری طرف پرائیویٹ سیکٹر میں اثر ورسوخ رکھنے والے اشرافیہ کو مختلف یونیورسٹیوں اور ڈگری ایوارڈنگ تعلیمی اداروں کے چارٹر بھاری فیس لیکر تفویض کئے۔ بھاری بھر کم فیسوں اور وغیرہ وغیرہ کی بنیاد پر لئے گئے چارٹرڈ یونیورسٹیوں نے بڑے بڑے انگریزی اور سائنس وٹیکنالوجی وغیرہ کے نام پر بڑی بڑی شاندار عمارتوں،متاثر کن اشتہارات اور میڈیا اور دلچسپ ودلکش ایونٹس اور بعض نامی گرامی معروف شخصیات کو اپنے پینل پر رکھ اکاؤنٹ ہولڈروں اور سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی اولادوں کو جن کو میرٹ پر پبلک سیکٹر تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا بہت مشکل ہوتا تھا دھڑا دھڑ داخلے دینے شروع کئے۔ پورے پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر میں نمز اور نسٹ جیسے چند ایک اداروں کے استثنیٰ کے علاوہ بہت کم ایسے ادارے ملیں گے جو اپنے چارٹرومنشور کے مطابق اپنے طلبہ کو کچھ دینے کے قابل ہیں۔آج کل کا مشہور مضمون کمپیوٹر سائنس اور کہنے کو ماسٹر،ایم ایس اور پی ایچ ڈی کمپیوٹر سائنس کے انبار لگ گئے ہیں لیکن مشرق وسطیٰ کی منڈیوں پر بھارت، فلپائن اور بعض دیگر ممالک چھائے ہوئے ہیں۔ یہی حال ان پرائیویٹ جامعات میں انجینئرنگ کے شعبے کا ہے کہنے کو انجینئرنگ کے جدید ترین اورمغربی ممالک سے لئے گئے مستعار ناموں میں سے ہر نام کی ڈگری آفر کی جاتی ہے مثلاً ایو ایشن انجینئرنگ بھی ہماری ان یونیورسٹیوںمیں موجود ہے لیکن ڈگری لینے والے شاید ہی اس بارے میں الف با بھی جانتے ہوں گے۔ اس سلسلے میں ایک اہم شعبہ طب(میڈیکل)کا ہے۔امیر لوگوں کے بچے دھڑا دھڑ ڈاکٹر بننے کیلئے ان کالجوں میں داخلے لیتے ہیں۔ ان میں کچھ طلبہ ایسے ضرور ہوں گے جوانٹر ی ٹیسٹ میں بعض وجوہات کی بناء پر رہ گئے ہوںگے ورنہ بنیادی طور پر قابل ہوتے ہیں لیکن نوے بچانوے فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جو اب پی ایم سی کے قوانین کی روسے 90لاکھ روپے پانچ برسوں میں دیکر ڈاکٹر بن تو جائیں گے لیکن ہمارے ہسپتالوں اور طبی شعبوں کا ایسے ڈاکٹروں کے ہاتھ جو درگت بننے والی ہے وہ مستقبل کی نسلیں دیکھیں گی اور بھگتیں گی۔ ہمارے تعلیمی اداروںمیں سائنس کو جو اہمیت اور فضیلت دی گئی ہے کاش عملی میدان میں اس کے کچھ نتائج بھی ایسے نکلتے کہ قوم کی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہوتا لیکن یہاں تو چند ایک سائنسدانوں کے علاوہ باہر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے وطن وعزیز میں آکر وائس چانسلر بن جاتے ہیںیعنی متنظم (ایڈ منسٹریٹر) حالانکہ اُن کو لیبارٹریوں میں ہونا چاہئے تھا اور سوشل سائنسز جو معاشرے کی ترقی، فلاح وبہبود اور بالخصوص اخلاقیات اور سماجیات کی اصلاح کرتے ہیں کسی کو یاد بھی نہیں۔
اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے