انڈوں کی اقسام اور قیمتوں کی اُڑان

اللہ کی پناہ،اب انڈہ بھی اٹھارہ بیس روپے کا ہوگیا ہے، یہ قیمت تو اس انڈے کی ہے جو سائز میں چھوٹا ہے وگرنہ تو اس وقت برائلرانڈوں کے بھی تین سائز ہیں اور ظاہر ہے سائز کے لحاظ سے ان کی قیمتیں بھی مقرر ہیں۔ چھوٹا انڈہ، بڑا انڈہ اور اس سے بھی بڑا یعنی میگا سائز کا انڈہ جس میں دو زردے ہوتے ہیں، یوں ان کی قیمتوں کو دیکھا جائے تو ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ابھی سردیاں مزید دو ڈھائی مہینے چلیں گی اور خدشہ ہے یا چلیں ذرا نرم الفاظ میں بات کی جائے تو امکان ہے کہ قیمتیں مزید بڑھیں گی یعنی جو چھوٹے سائز کا انڈہ اس وقت اٹھارہ بیس کا مل رہا ہے وہ 25روپے تک جا سکتا ہے۔ کمال ہے پھر بھی لوگ گھبرانہیں رہے ہیں، نہ ہی انڈہ کھانے سے باز آرہے ہیں، رہ گئے دیسی انڈے تو ان کی قیمت کا کیا پوچھنا۔ ابھی اگلے روز گلی میں دیسی انڈے فروخت کرنے والے کی صدائیں آئیں اور قیمت معلوم کی تو ساڑھے تین سو روپے درجن نے تو جیسے ہوش ہی اُڑا دیئے، گویا30روپے انڈہ مگرمسئلہ یہ ہے کہ اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ واقعی یہ جنہیں دیسی کے نام پر بیچا جارہا ہے واقعی یہ اصلی النسل ہیںیعنی دیسی مرغیوں ہی کے ہیں کیونکہ یار لوگوں نے یہاں بھی ڈنڈی ماری سے کام لینا شروع کر رکھا ہے، برائلر مرغیوں کے انڈوں کو نہایت آسان طریقے سے دیسی انڈوں میںتبدیل کرنے کیلئے شنید ہے کہ چائے کی پتی کو جوش دیکر رنگ نکالا جاتا ہے اور پھر اسی جوش دئیے ہوئے پانی کو ٹھنڈا کر کے اس میں انڈے کچھ دیر تک رکھ دیئے جاتے ہیں،یوں ان کی ”سفید چمڑی” سانولی سانولی ہو جاتی ہے، بالکل ان اہل مغرب کی طرح جو سمندر کنارے جاکر سن باتھ لیتے ہیںتاکہ ان کی رنگت سفید سے سانولی ہو جائے، عجیب لوگ ہیںاپنی سفید چمڑی پر فخر بھی کرتے ہیں، کالوں سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اپنی سفید چمڑی کو سانولی رنگت دینے کیلئے دھوپ میں بھی گھنٹوں لیٹے رہتے ہیں، خیر جانے دیں بات دیسی انڈوں سے بقول شاعر ”گندے انڈوں کی جانب چلی گئی یعنی
اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
ہاں تو ایک طریقہ تو برائلر انڈوں کو دیسی بنانے کا اسے چائے کے رنگ میں رنگنا قرار دیا جاتا ہے، اب اس میں کتنی صداقت ہے اور کتنا مبالغہ اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ دروغ برگردن راوی تاہم دوسرا طریقہ برائلر مرغیوں کی ایک خاص نسل کو ”گھریلو ماحول” میں دیسی مرغوں کیساتھ پالنے سے گویا دوغلی نسل کے انڈے حاصل کر کے انہیں دیسی قرار دینا ہے، یہ بہرصورت کسی نہ کسی حد تک تو درست طریقہ ہے، مگر ایسے انڈوں کو نجیب الطرفین پھر بھی قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی باپ (مرغا) دیسی اور ماں (مرغی) سفید فام البتہ صحیح دیسی انڈے وہی ہو سکتے ہیں جن کی پیدائش کا باعث نہ صرف مرغا اور مرغی دونوں دیسی ہوں اور پھر ماحول بھی وہی یعنی دانہ دنکا چگنے کیلئے گھریلو ڈھیر میسر ہوں۔ دیہات میں یہی تو وہ اصل ماحول ہوتا ہے جہاں یہ مرغے مرغیاں پلتی ہیں، کوڑے کرکٹ کے گھریلو ڈھیر سے کھاتی ہیں اور پھر انڈے دیتی ہیں، اس حوالے سے ایک اور بات جو انہی دنوں سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ دیسی انڈوں کے نام پر جو خرید وفروخت ہو رہی ہے ایک واقف حال کے مطابق یہ انڈے خراب ہوتے ہیں یعنی توڑا جائے تو اندر سے خراب ثابت ہوتے ہیں، اب اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے یعنی انتہائی مہنگے داموں خریدے جانے والے انڈے اگر ”گندے نکل آئیں تو بندہ سر پیٹ کر رہ جاتا ہے، ایک تو ہر شخص کے پاس ان انڈوں کو جانچنے کا وہ آلہ موجود نہیں ہوتا جس پر ان کی ”صحت” کو پرکھ کر یقین کر لیا جائے کہ انڈے گندے نہیں ہیں، حالانکہ اس کا ایک دیسی پیمانہ بھی موجود ہے یعنی ایسے انڈے اگر پانی سے بھرے ہوئے کسی برتن میں ڈال دئیے جائیں اور تہہ میں بیٹھ جائیں تو ٹھیک جبکہ پانی کی اوپری سطح پر تیرنا شروع کر دیں تو ایسے انڈے گندے ہوتے ہیں، اب وہ زمانہ بھی تو خواب اور خیال ہو چکا ہے جب لوگ تھیٹروں میںنا قص اداکاری کرنے والے ایکٹروں پر انڈوں کی بارش کر دیتے تھے اور اس مقصد کیلئے گندے انڈے اپنے ساتھ لیکر جاتے تھے البتہ اب یہ کام اپنے ”ناپسندیدہ” سیاستدانوں کیساتھ کیا تو جا سکتا ہے مگر یہ کام ذرا رسکی ہے کہ ایک تو لیڈر حضرات سامعین سے بہت دور اونچے سٹیج پر محفوظ روسٹرم کے پیچھے ہوتے ہیں اور جتنی بھی قوت سے انڈے ان کی جانب پھینکے جائیں ان تک ان انڈوں کی رسائی ممکن نہیں ہوتی یعنی راستے ہی میں گر کر ٹوٹ سکتے ہیں، دوسرا سب سے خطرناک وہ نتیجہ ہے یعنی ایسی حرکت کرنے سے لیڈر کے حامی اُلٹا انڈے پھینکنے والوں کی خبر لے سکتے ہیں اور یوں جلسہ گاہ سے باہر آنے کے بعد جو درگت بنا دی جائے گی ممکن ہے اس کے بعد متعلقہ افراد کی ہیئت کذائی دیکھ کر ان کے گھر والے بھی انہیں پہچاننے سے انکار کر دیں اور انہیں اجنبی قرار دیکر چیخنا چلانا شروع کر دیں کہ ”چور” گھر میں گھس آیا ہے، اس کے بعد مزید ”مہمان نوازی” کے خدشات بھی بڑھ سکتے ہیں، سو انڈے کا فنڈہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت