سکھ بھی غدار ہیں کیا؟

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی آج کل ایک بات تسلیم کروانے کی کوشش میں ہے کہ ملک کی پانچ فیصد برہمن آبادی دیش واسی یا محب الوطن ہے اور جو لبرل ہندو، نچلے طبقے سے وابستہ دلت کہا جاتا ہے، مسلمان، مسیحی اور سکھ پر مشتمل95فیصد آبادی کی ملک دشمنی پر شک کرنا واجب ہے۔ ان کیخلاف نفرت پھیلانا، ان پر تشدد کر کے ہلاک کرنا یا ان کی شناخت مٹانا ملک کی خدمت کرنے کے مترادف ہے حالانکہ فوج کے مختلف اداروں میں سکھوں کی بھاری تعداد موجود ہے اور بھارت کو اناج مہیا کرنے میں پنجاب کے سکھ سرفہرست ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کیخلاف نفرت پھیلانے والی مہم کافی عرصے سے جاری ہے جس کی بدولت ان کے کاروبار، رہن سہن، پوشاک، مذہبی مقامات اور رہائش پر پے در پے حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان کی نہ تو پولیس میں رپورٹ درج ہوتی ہے اور اگر کوئی عدالتوں میں انصاف حاصل کرنے کی ہمت بھی کرتا ہے تو عدالتوں سے ان کے مقدمات مسترد کر دیئے جاتے ہیں یا ان کے ہی خلاف فیصلے دیئے جاتے ہیں۔ حیدرآبار دکن کے صحافی اور مؤرخ اشوک شکلا کہتے ہیں کہ اس مہم کا اصل مقصد مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ مگر مسلمانوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ ہندوستان میں رہ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔ یہی حال دلتوں کا ہے جو پہلے مذہب تبدیل کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرتے تھے مگر گھر واپسی کی مہم شروع کرکے انہیں ہندو مذہب میں واپس شامل تو کرتے ہیں مگر ان کو اپنی گھروں سے دور صرف بھارت کی گندی نالیوں کی صفائی کرنے تک محدود رکھا جاتا ہے۔ نئی مہم سکھوں کیخلاف شروع کی گئی ہے لیکن اس کا نتیجہ انتہائی خطرناک نکل سکتا ہے۔ دلت، مسلمان، مسیحی اور سکھ اگر کوئی جلسہ کرتے ہیں یا کسی مطالبے کی بابت احتجاج کیلئے نکلتے ہیں تو ان پر فوراً پاکستانی، خالصتانی، چینی اور نیپالی لیبل لگا کر ملک میں افراتفری پھیلانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے تاکہ مطالبے سے توجہ ہٹا کر ان کو اپنی برادری میں ہی مشکوک بنایا جائے۔ بھارت کی نصف آبادی جو زمینداری سے جڑی ہوئی ہے گذشتہ دو ہفتوں سے ان زرعی قوانین کیخلاف احتجاج کر رہی ہے جو بقول کسان ان کو فصلوں کی کاشت، قیمت اور منڈی کی سہولیات کی بجائے صنعتکاروں اور تاجروں کو آمدنی کا تحفظ فراہم کرتے ہیں اور جن میں دس لاکھ سے زائد پنجاب کے وہ سکھ کسان خاندان متاثر ہو رہے ہیں جن کی فصلوں پر باقی ریاستوں کے کروڑوں عوام کا پیٹ پل رہا ہے۔ دہلی کا گھیراؤ کرنے سے پہلے یہ سب پنجاب میں تقریباً تین ماہ سے بی جے پی کی زرعی پالیسی کیخلاف چیختے چلاتے رہے ہیں لیکن مرکزی حکومت کی مسلسل خاموشی دیکھ کر یہ بستر باندھ کر دلی کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہاں انہوں نے بھارت کیساتھ ملانے والی تقریباً تمام اہم شاہراؤں پر ڈیرا ڈال دیا ہے۔ مودی حکومت ان قوانین کو زرعی اصلاحات سے تعبیر کرتی ہے جس سے کسانوں کو اپنی فصلوں کی قیمت دوگنی مل سکتی ہے جب کسانوں اور منڈیوں کے بیچ مڈل مین یا آڑھتی کا کردار نہیں رہے گا مگر مسلمان، دلت اقلیتوں کی طرح کسان بھی ان کے اقدام کو مشکوک سمجھتے ہیں اور خیال ہے کہ ان قوانین سے اصل مقصد ان صنعتکاروں کو مضبوط بنانا ہے جو بی جے پی کی انتخابی فنڈنگ کی ذمہ داری سنبھالتے رہے ہیں۔ بھارت کے پندرہ کروڑ خاندان کاشتکاری سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں بیشتر مفلسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قرضوں کی عدم ادائیگی یا فصلوں کے نقصان کی وجہ سے سال2019میں ساڑھے دس ہزار کسانوں نے خود کشی کی ہے۔شاید اقبال نے ان کی کیفیت کو محسوس کرکے ہی لکھا تھا:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
اتر پردیش کے سیاسیات کے اُستاد امیت کمار کہتے ہیں کہ مودی حکومت جس طرح سے بھارتی آئین کے وفاقی نظام کو ختم کرنے اور غریب مخالف پالیسیاں ترتیب دے رہی ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے عنقریب بنگالی، تامل، سکھ اور آسامی اپنے الگ الگ دیش کا مطالبہ کرنے لگیں گے۔ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد باقی قومیں اب بہت متحرک ہو گئیں ہیں جس کی حالیہ مثال ناگالینڈ کی ہے جہاں عوام پھر الگ مملکت کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ سکھوں کی تقریبا تین کروڑ کل آبادی میں سے ڈیڑھ کروڑ پنجاب میں آباد ہے باقی برطانیہ کینیڈا، امریکہ اور دیگر ممالک میں گزر بسر کر رہی ہے اور اپنا ایک خاص مقام اور پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پنجاب کشمیر نہیں ہے جہاں دس لاکھ افواج کو عوام کو دبانے پر تعینات کیا گیا ہے۔ اگر سکھوں کو ذرا بھی محسوس ہوا کہ بھارتی حکومت ان پر اپنی پالیسیاں مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے یا ان کی زمین یا روزی روٹی چھیننے کی کوشش میں ہے تو ایک بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ جموں و کشمیر سے بہت پہلے پنجاب الگ ہوجائے گا جس کے لیے سکھوں کو نہ تو کسی ملک کی حمایت کا انتظار کرنا ہوگا اور نہ ہتھیار حاصل کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار ان کا اتحاد، ان کی اجتماعی سوچ، ان کا کم آمدنی پر انحصار اور ان کی جذبہ خدمت خلق ہے۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے