ایسوسی ایٹ ڈگری، تعلیم کیساتھ ایک اور مذاق

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے رحم وکرم پر ہے، ایسے ممالک کو پہلے تیسری دنیا کے ممالک سے جانا جاتا تھا مگر پھر اس کو ترقی پذیر کہا جانے لگا، اس میں وہ تمام ممالک شامل ہیں جہاں لوگوںکو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اور یہ ممالک زیادہ تر آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر چلتے ہیں۔ مانیٹرنگ فنڈ کے ادارے جو کہتے ہیں انہیں ان چیزوں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ وہ شرائط کسی بھی شعبہ میں ہوسکتی ہیں یعنی وہ پالیسیاں وطن عزیز میں لاگو کردی جاتی ہیں جن کے بارے میں ہر بندہ جانتا ہے کہ یہ پالیسی وطن عزیز میں نہیں چل سکتی۔ چاہے وہ صحت کی پالیسی ہو، معاشی پالیسی ہو، ایجوکیشن کی پالیسی ہو یا ہائیرایجوکیشن کا معاملہ ہو ہر جگہ پر نت نئی پالیسیوں سے ادارے تباہی کی جانب گامزن ہوجاتے ہیں۔ اب حالیہ یونیورسٹیوں میں ایسوسی ایٹ ڈگری لاگو کرنے کی منصوبہ بندی ہے جس کے مطابق اب ہائیرایجوکیشن کمیشن نے2سالہ بی اے بی ایس سی کی ڈگری پر پابندی عائد کر دی ہے اور اب صرف اور صرف ایسوسی ایٹ ڈگری کے مضامین پڑھائے جائیں گے اور بی اے، بی ایس سی کی جگہ ایسوسی ایٹ ڈگری 29مضامین ایسوسی ایٹ ڈگری65کریڈٹ آورز کے کورسز پر4 سمیسٹرز میں پڑھنے ہوں گے۔ ایک سمسٹر میں طلبا کو4سے6کورسز آفر کئے جائیں گے۔ ایسوسی ایٹ ڈگری میں22میں سے6مضامین لازمی ہوں گے، ہیلتھ سروسز اینڈ پیرا میڈیکل ٹیکنالوجی، بزنس اینڈ کامرس، پبلک سروس، ڈیٹا پروسیسنگ اینڈ پروگرامنگ، فزیکل تھراپی، اکاؤنٹنگ، کمپیوٹر نیٹ ورکنگ، ویب ڈیزائن، ہیلتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی، انڈسٹریل ٹیکنالوجی، میڈیا اسٹڈیز، پبلک ریلیشن، ٹورازم، سپلائیڈ سائیکالوجی، ایگری بزنس، ڈینٹل ہائیجین، میڈیکل لیب ٹیکنالوجی، مائن ٹیکنالوجی، ڈینٹل تھراپی، سٹوڈیو آرٹ، ڈرامہ اینڈ تھیٹر، میوزک، سیلز اینڈ مارکیٹنگ اور سیکورٹی مینجمنٹ کو پہلے فیز میں ڈالا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایچ ای سی نے فیکلٹی کی شرط بھی عائد کر دی ہے، متعلقہ مضمون میں ایک ایک ایسوسی ایٹ اور اسسٹنٹ پروفیسر جبکہ4لیکچرار ہونا لازمی قرار دیا گیا۔HEC کی جانب سے کالجز اور دیگر ڈگری فراہم کرنے والے اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چار سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری (A.D) کو نافذ کریں۔ اب کالج کی سطح پر آرٹس، کامرس اور سائنس کے تخصیصی (Specialized) مضامین کو ایسوسی ایٹ ڈگری میں کس طرح سمویا جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب ایچ ای سی کے پاس بھی نہیں ہیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان کی کالجز اور دیگر ڈگری فراہم کرنے والے اداروں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ ایسوسی ایٹ ڈگری کے تحت تدریس کر سکیں۔ پالیسی بناتے وقت تینوں اسٹیک ہولڈرز (طلبہ، اساتذہ، والدین) سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ اس ڈگری کیساتھ ساتھ2020 کے بعد دو سالہ ماسٹر پروگرام (ایم اے، ایم کام، ایم ایس سی) کا بھی خاتمہ کردیا گیا ہے جس کے خاتمہ سے وہ طلبہ جو اپنی نوکریوں کیساتھ ساتھ بحیثیت پرائیوٹ اُمیدوار اپنی تعلیمی قابلیت بڑھایا کرتے تھے ان سے بھی اب پرائیویٹ تعلیم کے مواقع چھین لئے گئے ہیں۔ اس پالیسی سے ان خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہوگی جو پاکستان کے مخصوص ثقافتی ماحول میں گھر بیٹھ کر پرائیوٹ اُمیدوار کے طور پر امتحانات کی تیاریاں کرتی تھیں اور پھر سال کے آخر میں اماں، ابا، بھائی یا شوہر کیساتھ دور دراز کے امتحانی مراکز میں جاکر امتحان دیدیا کرتی تھیں۔ ایسوسی ایٹ ڈگری کے نفاذ کے بعد لوئر مڈل کلاس کے طلبہ پر تعلیم کے دروازے تقریبا بند ہی ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں ان کا اکیڈمک کیرئیر ختم ہو جائے گا کیونکہ پاکستان کے دوردراز علاقے کالجز اور یونیورسٹیوں سے محروم ہیں بلکہ چند بڑے شہروں میں جو کالجز اور یونیورسٹیاں قائم ہیں وہاں بھی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر پاکستانی پالیسی سازوں کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے کہ وہ غریب عوام کا سوچیں بلکہ انہیں گلوبل نالج اکانومی اور نالج ورک فورس جیسے نیو لبرل ایجنڈہ پر عمل پیرا ہوکر ورلڈ بینک فنڈڈ ایجوکیشنل بیوروکریسی کے نظریات کو پروموٹ کرنا مقصود ہے ان کیلئے صرف ورلڈ بینک اور گلوبل ایجوکیشن انڈسٹری کے احکامات ہی پالیسی کا درجہ رکھتے ہیں۔ حکومت کی ان عجیب وغریب پالیسیوں سے گلوبل انویسٹرز کے مفادات کو تقویت ملے گی۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے