وبا ء کے دنوں کی لاپرواہیاں

کورونا کی پہلی لہر میں ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست کو اس وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا مگر ابھی زندگی باقی تھی اس لیے موت سے بچ گئے ! انہوں نے دوران بیماری کسی دوست کو بھی اپنی بیماری کی ہوا نہیںلگنے دی بس خاموشی سے اپنے گھر میں اپنے آپ کو قرنطینہ کرلیا ! آج بھی وہ کورونا کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ میرا زکام بگڑ گیا تھا شاید یہ بھی کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے کہ کورونا کا شکار مریض اپنی بیماری لوگوں سے چھپاتے پھرتے ہیں ہمیں تو ایک جناز ے میں ایک صاحب سے گلے ملنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی جنھیں کورونا تھا وہ تو ہمیں تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ جناب کووڈ 19 کا شکار ہیں لیکن کسی کو بتاتے نہیں ! چلیں نہ بتانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر تقریبات میںشرکت کرنا ، جنازوں میں شامل ہونا تو اپنے ملنے جلنے والوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے ! آپ یقین کیجیے دو تین دنوں تک ہماری جان پر بنی رہی زرا سی کھانسی ہوتی تو ہم لرز اٹھتے ! کسی چیز کو چکھ کر دیکھتے کہ منہ کا ذائقہ تو ختم نہیں ہوگیا !احتیاطا ہر رات سونے سے پہلے بھاپ لینی شروع کردی ! اللہ کریم نے کرم کیا لیکن کئی دنوں تک رات کو آنکھ لگتے ہی کورونا وائرس کے حوالے سے ایک نہ ختم ہونے والاڈرائونے خوابوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا !ا ب بھی ہماری دوستوں سے یہی گزارش ہے کہ اگر کورونا کی شکایت ہوتی ہے تو اس میں آپ کا کیا قصور ہے ؟ یہ کوئی اخلاقی بیماری تو نہیں ہے جو آپ لوگوں سے چھپاتے پھرتے ہیں!اپنا خیال بھی رکھیے اور دوستوں پر بھی رحم فرماتے رہیں تو کیا مضائقہ ہے! بیماری اور تندرستی کی آنکھ مچولی ساری زندگی چلتی رہتی ہے یوں بھی ہوتا ہے کہ بندہ بیمار نہیں ہوتا لیکن اسے بیمار ہونے کی غلط فہمی ہو جاتی ہے ہم نے ایسے بہت سے دائمی بیمار دیکھے ہیں جو آپ سے ملتے ہی اپنی بیماری کی طولانی داستانیں شروع کردیتے ہیں شاید انہیں اپنی بیماری کے تذکرے سے تسکین ملتی ہے! ویسے سیانے کہتے ہیں کہ بیماری میں انسان کے رویے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے وہ مرض کو کس انداز سے لیتا ہے اپنے سر پر سوار کرلیتا ہے یا اسے چٹکیوں میں اڑا دیتا ہے چند برس پہلے ایک مہربان نے اپنی بیماری کی ہوش ربا داستان سنائی تھی جسے سن کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے معدے میں معمولی سی تکلیف تھی ڈاکٹر نے چند ٹیسٹ لکھ دیے ٹیسٹ کروائے توایک ٹیسٹ میں معدے کا کینسر تشخیص ہوا کہتے ہیں ٹیسٹ رپورٹ پڑھ کر سر گھوم گیا دنیا اندھیر ہوگئی سوچا بس اب وقت رخصت ہے کینسر جیسے موذی مرض سے کون بچا ہے نگاہوں کے سامنے بیوی بچوں کے چہرے یکے بعد دیگرے گھومنے لگے بیوی کے ساتھ روا رکھی گئی بے رخیاں بھی یاد آئیں لیکن ساتھ ہی وہ طعنے بھی ذہن میں گونجنے لگے جو ہماری شریک حیات ہمیں مختلف موقعوں پر دیتی رہتی ہیں دل نے کہا کہ اب تم نہیں ہوگے تو بیوی بچوں کو تمہاری قدر آئے گی زندگی میں تو کسی نے قدر نہیں کی اب مرنے کے بعد یہ مجھے تو نہیں روئیں گے لیکن ان سہولتوں کو ضرور روئیں گے جو میرے دم سے انہیں میسر تھیں !گھر جانے کے لیے روانہ ہوا تو یقین کیجیے قصہ خوانی بازار کو اس طرح دیکھا جیسے یہ دیکھنا آخری بار ہو دل خون کے آنسو رو رہا تھا لیکن ہمت مردانہ سے کام لیا قدم نہیں اٹھ رہے تھے لیکن دل میں خیال آیا کہ مرنا تو ویسے بھی ہے ایک فالودے کا پیالہ تو کھالوں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔جیسے تیسے ہوٹل میں داخل ہوا اور قلفی والا فالودے کا پیالہ مردانہ وار معدے میں منتقل کیا یقین کیجیے ہر چمچ کے ساتھ آنسو ابل پڑنے کے لیے تیار تھے لیکن حوصلے سے کام لے کر آنسو پی گیا ورنہ فالودہ کھاتے ہوئے ایک مرد کا رونا لوگوں کو بڑا عجیب لگتا۔فالودہ کھا کر باہر نکلا تو لوگ بڑے اچھے اچھے لگ رہے تھے دل پر ایک عجیب قسم کی رقت طاری تھی اپنی گلی میں داخل ہوا تو گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں کے گال پیار سے تھپتھپائے وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگے میں ہمیشہ گلی میں کھیلتے بچوں کو بھگا دیا کرتا تھا لیکن آج کیفیت ہی کچھ اور تھی ایک میڈیکل رپورٹ نے میری کایا پلٹ کر رکھ دی تھی بہت سے کام یا د آنے لگے جنہیں کرنے کا ارادہ پچھلے کئی سالوں سے کر رکھا تھا حج کا ارادہ کئی بار کیا تھا لیکن نہیں جاسکا تھا دل و دماغ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اب حج کا فریضہ ادا کرنے کی فرصت ملتی بھی ہے کہ نہیں ! دوستو! یہ داستان تو طویل ہے بس اس پر اکتفا کیجیے کہ انہوں نے دوسری لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا جب کراچی سے رپورٹ آئی تو اس میں کینسر کا نام ونشان بھی نہیں تھا!ہم نے جب سے ان کی دل دہلادینے والی کہانی سنی ہے ہر وقت اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہیں اور ہر قسم کی بیماری سے بچنے کی دعا مانگتے رہتے ہیں !کل سوات میں ایک اور ڈاکٹر کورونا سے جاں بحق ہوگیا ہے بہت سے بچے کورونا کا شکار ہیں !خیبر پختونخوا میں کل کورونا سے مزید دس ہلاکتیں ہوئی ہیںصرف پشاور میں چار مریض دم توڑ گئے ہیں! اس وقت بھی آئسولیشن وارڈ میں پانچ سو پچاس مریض موجود ہیں اللہ سب پر رحم کرے اور اس موذی وباء سے تمام بنی نوع انسان کو محفوظ رکھے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت