فرینڈ ز ناٹ ماسٹرز؟

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی متحدہ عرب امارات کے دور ے پر چلے گئے ۔سٹریو ٹائپ کہانی کے انداز میں بیان کریں تو وہاں ان کی ملاقات دوبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم اور وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید سے ہوئی ہے۔ شاہ محمو د قریشی نے اماراتی حکمرانوں کو وزیر اعظم عمران خان کا خیر سگالی کا پیغام پہنچایا اور امارات میں کام کرنے والے محنت کشوں کے مسائل پر بات چیت کی۔ اس روایتی خبر کی تہہ میں اصل خبرحالات وواقعات کے پس منظر میں موجود ہے ۔وزیر خارجہ کا یہ دورہ ایک ایسے عالم میں ہوا جب خلیج کے دو اہم ملکوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ایک دراڑ اُبھری ہے اور اس دراڑ کو وسیع کرنے والے پہ در پہ کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔عالمی اور علاقائی سیاست میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا سایہ ہے۔سعودی عرب اپنی روایتی قدامت پسندی اور ایک مخصوص امیج کی وجہ سے جس موقف کا اظہار کرنے سے کتراتا ہے اس کا اظہار متحدہ عرب امارات کرتا ہے یوں اماراتی پالیسیاں حقیقت میں سعودی پالیسیوںکا ہی عکس ہوتی ہیں ۔متحدہ عرب امارات نے کورونا کا بہانہ بنا کر پاکستانیوں کے لئے ویزوں کا اجراء بند کردیا ہے۔یہ عذر ،عذر لنگ نہ کہلاتا اگر یہی معیار بھارت کے لئے اپنایا جاتا جہاں کورونا کی صورت حال پاکستان سے کئی گنا بدتر اور خطرناک ہے۔ پاکستانیوں کے لئے ویزے بند اور بھارتیوں کے ویزوں کا مسلسل اجراء اپنے اندر ایک واضح پیغام رکھتا ہے ۔اس سے پہلے تاریخ میں پہلی بار بھارتی فوجی کے سربراہ نے سعودی عرب اور امارات کا طویل دورہ کیا۔سعودی عرب سے آنے والی خبریں یہ بتارہی ہیں کہ یہ دورہ زیادہ حوصلہ افزا ء ثابت نہیں رہا۔بھارت پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے خلاء کو فوجی انداز سے پر کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان کی فوج سعودی عرب میں جو خدمات انجام دیتی ہے بھارت وہ سب خدمات انجام دے کر اس اہم ملک سے پاکستان کو باہر دھکیلنا چاہتا تھا مگر سعودی شاہی خاندان کے بااثر افراد اور فوج نے اس سرگرمی کو پسند نہیں کیا ۔پاکستان اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھا اور اگر بھارت کی کوشش کامیاب ہوتی تو سب سے پہلے جنرل راحیل شریف کو اپنا بیگ اُٹھاکر جدہ ائرپورٹ کی راہ لینا ہوتی جس کے لئے پاکستانی حکام ذہنی طور پر تیار تھے ۔ شہزادہ ترکی الفیصل کا وزیر اعظم عمران خان کو فون شاہی خاندان میں محمد بن سلمان کی متوازی سوچ اور جذبات کا عکاس تھا۔ترکی الفیصل شاہ فیصل مرحوم کے صاحبز ا د ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان سے تین ارب ڈالر واپس مانگ کر اس کی معاشی مشکلات کو بڑھانے کے لئے ایک کارڈ کھیلا تھا مگر پاکستان نے جیسے تیسے اس مشکل پر قابو پالیا۔اس دوران اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ بھی پاکستان کے لئے مشکلات کا باعث بنا رہا ۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اس صف میں جو ممالک کھڑے نظر آئے ان میں سعودی عرب کا نام بھی شامل تھا ۔سعودی عرب پاکستان پر بھی یہ دبائو بڑھارہا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تلخ گھونٹ پی لے ۔سعودی عرب اور امارات کی ناراضگی کی ایک اہم وجہ یہ بھی بیان کی جارہی تھی اورخود سعودی حکمران خاندان بھی اس معاملے پر تقسیم تھا ۔وقتی طور پر یہ معاملہ ٹل گیا ۔اس دوران پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک چلارہی تھیں اور اس تحریک کے محرک اور مرکزی کردار نوازشریف نے ایک دومراحل پر حکومت کے خلاف اپنی چارج شیٹ میں واضح طور پر کہا کہ حکومت کی پالیسیوں نے دوست ملکوں کو ناراض کردیا ہے ۔دوست ملک سے ان کی مراد سعودی عرب اور امارات سے ہی تھی ۔بعد میں دوست ملکوں کی ناراضگی کا نکتہ چارج شیٹ سے غائب ہوگیا ۔اس دوران یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ امریکہ میں جوبائیڈن انتظامیہ کی وائٹ ہائوس میں آمد سے پہلے ہی ٹرمپ کی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔ انہی اشاروں کے زیر اثر بھارت نے دوبارہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے ۔ایران جو تیزی سے بھارت کے اثرسے نکل کر چین کی طرف لڑھک رہا تھا دوبارہ چاہ بہار کے ذریعے بھارت کے قریب ہونے لگا ۔اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں ایران پر پابندیاں سخت ہونے کا امکان نہیں یا بھارت کو امریکہ نے اس معاملے میں ”گواے ہیڈ ” کا گرین سگنل دے دیا ہے۔ایران سعودی عرب اور امارات کے لئے سانڈ کے آگے سرخ رومال کی طرح ہے ۔اس نئی اُبھرتی ہوئی صورت حال نے عرب ملکوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا وہ جس ایران کا محاصرہ کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ دوستی میں گہرائی اور شدت پیدا کر رہے تھے وہ بھارت وائٹ ہائوس کا مکین اور منظر بدلتے ہی دوبارہ چاہ بہار پر مرمٹنے کے لئے تیار وآمادہ ہے۔اس ساری صورت حال نے سعودی عرب اور امارات کو دوبارہ پاکستان کی طرف امیدا فزاء نظروں سے دیکھنے پر مجبور کیاہے ۔پاکستان نے دوستوں ،مہربانوں اور قدردانوں سے اس پس پردہ کھچ کھچ سے بہت سے سبق سیکھے ہوں گے ۔جن میں پہلا یہ ہے کہ معاشی خودانحصاری کے بغیر آزادی اور آزاد خارجہ پالیسی کا کوئی تصور نہیں ۔دوسرا یہ کہ دوست اور بھائی کو اپنے جائز مقام پر رکھنا چاہئے اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر حاوی کرکے” آقا”کی حیثیت نہیں دینا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے