چینی مندوب کا درست مشورہ

اقوام متحدہ میںایک چینی مندوب نے کہاہے کہ افغانستان کے مستقبل کے انتظامات میں وسیع تر نمائندگی وشمولیت ہونی چاہئے۔تاکہ افغانستان میں تمام فریقوں،نسلی گروہوں اور مذہبی طبقات کا طاقت میں برابر حصہ ہو۔مندوب نے کہاکہ بین الاقوامی برادری کو افغان شہریوں کی رضامندی کا احترام کرنا چاہئے اور افغانوں کی سربراہی میں اور افغان ملکیت کے تحت مذاکرات کاعمل یقینی بناناچاہئے۔ کسی بیرونی طاقت کو ذاتی عزائم مسلط کرنے یا مقاصد حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔اقوام متحدہ میں چینی مندوب کا بیان پتھر پر لکیر کے زمرے میں آتا ہے۔افغانستان کے مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل اسی وقت ہی ممکن ہوگا جب سارے فریقوں کی نمائندگی اور احترام ہوگا افغانستان کے مسئلے کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بعض ممالک کی اجارہ داری کی پالیسی اور کوشش ہے۔نیز ان قوتوں کی یہ بھی کوشش ہے کہ چونکہ امن عمل میں وہ کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں اس لئے دہشت گردی اور عوام استحکام کے ذریعے اپنی اہمیت کا احساس دلایا جائے اس صورتحال سے ہوشیار رہنے اور ان کو ناکام بنا کر ہی افغان امن عمل میں پیشرفت ممکن ہے۔افغانستان کی حکومت اور عوام کو ان عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے افغانستان کی سرزمین پر ان عناصر کو کھل کھیلنے کا مزید موقع نہ دیا جائے تاکہ ہمسایہ ممالک سے غلط فہمی کا کوئی امکان باقی نہ رہے اور ملک میں قیام امن کا عمل آگے بڑھے۔
دہشت گردی کے خطرات ،ہوشیار رہنے کی ضرورت
خیبرپختونخوامیںدہشتگردی کی بڑی واردات ناکام بناتے ہوئے تین مختلف کارروائیوں میں17 دہشت گردوں کوگرفتارکرلیاگیا۔سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں نے25 دسمبر کوکرسمس کے موقع پر پشاور میں بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی ملزمان پشاورمیں ایک چرچ پرحملہ کرناچاہتے تھے۔دوسری طرف مردان میںسی ٹی ڈی پولیس نے ٹارگٹڈ آپریشن میں5افغان دہشتگرد وں کو گرفتارکرکے ان کے قبضے سے خود کش جیکٹ،2خودساختہ بم،5ہینڈ گرنیڈ، 2 کلاشنکوف، 3پستول اور کارتوس برآمد کرلئے۔ دہشت گردوں کا نشانہ چینی باشندے ،لڑکیوں کے سکول اور مسجد تھی۔ دہشت گردی جن دنوں عروج پر تھی تو تقریباً ہر واردات کے بعد اس امر کا اظہار کیا جاتا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔کرسمس کے موقع پر پشاور میں چرچ کو نشانہ بنانے کی مذموم منصوبہ بندی اور گرلز سکول ومسجد کو نشانہ بنانے کی مذموم منصوبہ بندی کرنے والوں کی گرفتاری اور ان کے انکشاف کے بعد لوگوں کے وہ خیالات اور بیانات عملی طور پر ثابت ہوگئے کہ دہشت گردوں کا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے سینے میں دل ہوتا ہے کہ وہ معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کچھ سوچ ہی لیتے ۔پولیس اور متعلقہ ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ان دہشت گردوں کو بروقت گرفتار کر کے ان کا منصوبہ ناکام بنایا۔ملک میں اقلیتی برادری کا معاملہ خاص طور پر حساس ہے یکے بعد دیگرے خدانخواستہ اگر چرچ ومسجد کو نشانہ بنایا جاتا تو غلط فہمی کا امکان تھا اور دشمنوں کو پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جانا پشاور میں کوہاٹی میں جب چرچ کو نشانہ بنایا گیا تو بلا امتیاز دین ومذہب، مسلمان،سکھ اور دیگر اقلیتی برادری نے جس طرح زخمیوں کی مدد کی اور موقع پر امدادی کاموں میں حصہ لیا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے دشمن ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کرنے کی مذموم کوشش میں مصروف ہے جس سے ہوشیار اور خبردر رہنے کی ضرورت ہے۔افغانستان کی سرزمین کورا اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے جس کی روک تھام کیلئے افغانستان کی حکومت کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔صورتحال کے پیش نظر چرچ اور مساجد کی حفاظت اور بالعموم امن وامان کی مجموعی صورتحال پر توجہ کی ضرورت ہے عوام بھی ہوشیار رہیں تاکہ سازشی عناصر کو کوئی موقع نہ مل سکے۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں