آکسیجن سلنڈرکی قیمتوںمیںاضافے کا فوری نوٹس

کورونا وائرس کی پہلی لہر سے قبل آکسیجن سلنڈر280رروپے میں فروخت ہورہا تھا، کورونا وائرس میںآکسیجن سلینڈر کی مانگ میںاضافہ ہونے کے بعد اس کی قیمت میںاضافہ ہو کر850روپے تک پہنچ گیا ،تاہم اب آکسیجن سلنڈر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور آکسیجن سلنڈر 1800روپے میں فروخت ہورہا ہے، قیمتوںمیں اضافے کے باعث گھروں میںآئسولیٹ مریضوں کی مشکلات میںاضافہ ہوا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آکسیجن سلنڈر کا شمار جان بچانے والی اشیاء میں ہوتا ہے بالخصوص وباء کے دنوںمیں آکسیجن سلنڈر کی ضرورت میں جب اضافہ ہوگیا ہے تو اس کی قیمتوں پر قابو پانا انتظامیہ کی ذمہ داری تھی لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کے باعث سات مریضوں کی وفات کے بعد ڈاکٹرز اور انتظامیہ کی طرف سے گھروںمیں آئسولیٹ مریضوں کیلئے آکسیجن کو اہم قرار دیا گیا تھا تاہم سلنڈر کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے کئی مقامات پر قلت کا بھی سامنا ہے جس سے گھروں میں قرنطین مریضوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔اس ضمن میں بنیادی طور پر دوسوال پیدا ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ انتظامیہ کی طرف سے آکسیجن سلنڈر کی کتنی قیمت مقرر کی گئی ہے دوسرے یہ کہ اگر تاجر سرکار کی طرف سے طے کردہ قیمت سے زیادہ میں فروخت کررہے ہیں تو اس کانوٹس لیکر اس کا تدارک کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر آکسیجن سلنڈر کی قیمتوں میں اضافے کا فوری نوٹس لیا جائے، اگر آکسیجن سلنڈر کی قیمتوں میں اضافے میں مافیا ملوث ہے تو اس کیخلاف ٹھوس کارروائی عمل میں لائی جائے کیونکہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
قومی املاک کی حفاظت سب کی ذمہ داری
پینے کا صاف پانی ہر شہری کا بنیادی حق ہے کیونکہ صاف پانی کی عدم فراہمی سے متعدد بیماریاں پھیلتی ہیں، پشاور کے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے صوبائی حکومت نے تین فلٹریشن پلانٹس کا افتتاح کیا ہے، اس موقع پر معاون خصوصی برائے اطلاعات نے کہا کہ پشاور میں صاف پانی کی فراہمی،نکاسی آب کی سہولیات اور صفائی ستھرائی کے حوالے سے بہترین خدمات ان کی اولین ترجیح ہے، انہوں نے کارپوریشن سیکٹر کے تعاون سے پورے پشاور میں ترقیاتی منصوبوں کے عزم کا اظہار کیا۔صوبائی حکومت کی طرف سے پشاور کے شہریوں کیلئے صاف پانی کی فراہمی قابل تحسین ہے، مسلم ہینڈزکی طرف سے اس سے پہلے بھی خیبر پختونخوا کے دیہی وشہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی کیلئے متعدد منصوبوں سے عوام مستفید ہورہے ہیں، تاہم توجہ طلب امر یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں روپے کی لاگت سے شروع ہونے والے فلاحی منصوبوں کی دیکھ بھال اور مرمت کا بھی مناسب انتظام کردیا جائے کیونکہ ہمارے ہاں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کروڑوں روپے کے منصوبے دیکھ بھال اور بحالی کا انتظام نہ ہونے کے باعث کچھ ہی عرصہ میں ناکارہ ہوگئے۔حکومت کیساتھ عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلٹریشن پلانٹس سے مستفید ہونے کیساتھ ساتھ قومی اثاثہ کی اس طرح حفاظت کریں جس طرح وہ اپنی ذاتی اشیاء کی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ قومی اثاث جات کے بہر صورت اصل مالک عوام ہی ہوتے ہیں۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ دیکھ بھال کیلئے مقامی سطح پرکمیٹی تشکیل دے دی جائے، بیرونی ممالک میںسرکاری املاک اس لئے محفوظ رہتی ہیں کہ وہاں پر بلدیاتی نظام کے تحت مقامی اور یونین کونسل کی سطح پر املاک کی حفاظت یقینی بنائی جاتی ہے ہمیں بھی اس ماڈل پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
گیس بحران کا مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت
سردی کی لہر میں شدت کے ساتھ ہی گیس بحران میں اضافہ ہوگیا ہے، چاروں صوبوں میں سی این جی اورگھریلو صارفین گیس بحران سے متاثر ہورہے ہیں جبکہ صنعتوں میں سرگرمیاں رک گئی ہیں۔صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ گیس کی عدم فراہمی سے غیر ملکی آرڈرز منسوخ ہونے کے خدشات ہیں ،صنعتکاروں کے مطابق سردی شروع ہونے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اجلاس میں یقین دہانی کرائی گئی کہ اگر صنعتکار معمول کے ٹیرف سے زائد خرچ پر گیس لینے پر تیار ہوں تو انہیں بلا تعطل اور پیداوار کی طلب کے مطابق گیس فراہم کی جائے گی لیکن زائد ٹیرف کے باوجود حکومت کی طرف سے صنعتوں کو گیس فراہمی کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔اسی طرح گھریلو صارفین کی مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں کیونکہ سوئی گیس کی قلت کے باعث صارفین گھریلو ضروریات کیلئے ایل پی جی استعمال کرنے پر مجبور ہیں لیکن ایل پی جی کی قیمتیں بھی ہوشربا حد تک بڑھ چکی ہیں۔ایسا لگتا ہے گیس بحران پر قابو پانے کیلئے آج تک جتنے بھی اقدامات کئے گئے ہیں وہ عارضی تھے ، صارفین کی مشکلات کو مد نظر رکھ کر گیس بحران کا مستقل حل تلاش کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت