خبریں اور تبصرے

چلیں شکر ہے کہ وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے یہ تو کہہ دیا کہ نوازشریف اور اسحق ڈار کو اللہ تعالیٰ ہی لائے تو وہ ملک واپس آئیں گے۔ اب یہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر ڈالنے کی وجہ یہی ہے کہ برطانیہ کیساتھ قیدیوں اور مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ ”راز” سب پر عیاں تھا تو اب تک دعوے اور بڑھکیں کیوں ماری جاتی رہیں؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت جن حالات اور مشکلات کا شکار ہے دعوؤں اور بڑھکوں سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی ہے۔ خود وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ نوازشریف کا ملک سے باہر چلے جانا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ اب بندہ پوچھے صاحب ”یہ پانامہ کے کیس میں اقامہ پر سزا ہوئی تو ایسا ہی ہوگا” جہاں تک نوازشریف کا معاملہ ہے وہ علاج کیلئے برطانیہ گئے، طبی وجوہات کی تصدیق حکومت کے اپنے میڈیکل بورڈ نے کی تھی، اب اگر فراڈ ہوا ہے تو اس میں حکومت کا میڈیکل بورڈ برابر کا شریک ہے۔ اس طور ہونا یہ چاہئے کہ حکومت پہلے اپنے میڈیکل بورڈ صدر پنجاب کی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد کیخلاف کارروائی کرے تاکہ پتہ تو چلے کہ حکومت کتنی سچی اور سنجیدہ ہے۔خبر یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کے 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کی شرائط پر عمل کا ”سوچ”ہی لیا ہے۔ ای سی سی کے آئندہ اجلاس میں بجلی کے بلوں پر سبسڈی اور سلیب کے خاتمہ کا فیصلہ کر لیا جائے گا۔ اسی اجلاس میں منفی یونٹوں کیلئے بجلی کے فی یونٹ3روپے سبسڈی جولائی2021ء میںخاتمے کی منظوری دیدی جائے گی۔ آئی ایم ایف کا تقاضہ یہ ہے کہ بجلی پر سبسڈی اور سلیب کیساتھ سوئی گیس کے سلیب کا خاتمہ کیا جائے۔ ایک شرط یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت رواں مالی سال کیلئے 175روپے مقرر کی جائے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔ فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حکومت اپنی آمدنی بڑھانے کیلئے ایسے اقدامات کرے جن سے قرضوں کی ادائیگی میں سہولت ہو۔ آئی ایم ایف شرائط پر عمل گو اب ناگزیر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تجربہ کار ٹیم کے تین سو ارکان روزاول سے لاپتہ ہیں حالانکہ وزیراعظمعمران خان کہا کرتے تھے کہ انہوں نے مختلف شعبوں کے تین سو ماہرین منتخب کر لئے ہیں اور یہ ماہرین تین ماہ کے اندر ملک میں انقلاب برپا کردیں گے۔ انقلاب تو خداجانے کب برپا ہوگا البتہ لوگوں کی چیخ وپکار سب کو سنائی دے رہی ہے۔ادھر ایک خبر اور ہے وہ یہ کہ یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کے انٹرنل آڈٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن نے گھی کے ایک برانڈ کی مقررہ قیمت 153روپے کی بجائے 190روپے فی کلو خرید کر گھی بنانے والی فیکٹری کے مالکان کو 37کروڑ 80لاکھ روپے کا فائدہ دیا جبکہ دیگر پانچ برانڈز کے گھی خرید کر ملکی خزانے کو 12کروڑ 90لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا یعنی ملکی خزانے کو 50کروڑ70لاکھ روپے کا چونا لگوایا گیا۔ اگلا مرحلہ اس سے دلچسپ ہے وہ یہ کہ مہنگے داموں خریدے گئے ایک کروڑ20 لاکھ کلو گھی کو مقررہ سبسڈی پر فروخت کرنے سے مزید 20کروڑ کا نقصان ہوا۔ اس طور لگ بھگ 70لاکھ روپے کا بوجھ پڑا،ا س خبر کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ37کروڑ 80لاکھ روپے کا فائدہ جس گھی مل کو پہنچایا گیا اس کے مالکان ایک میڈیا ہائوس بھی چلاتے ہیں۔ فقیر راحموں کہتے ہیں کاش ہم نے بھی ایک میڈیا ہائوس ہی تعمیر کر لیا ہوتا۔ ساڑھے چار ارب ٹیکس حکم امتناعی پر بچا لیتے اور لگ بھگ 38کروڑ روپے گھی بیچ کر۔ خیر اب اصل سوال یہ ہے کہ اس 38کروڑ میں کس نے کتنا حصہ وصول کیا؟ آڈٹ رپورٹ نے تو ہیرپھیر کی نشاندہی کی ہے، حکومت کو یہ معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کرنا چاہئے، البتہ یہ امر مدنظر رکھنا ہوگا کہ چینی، ادویات، گندم اور آٹا والے سکینڈلوں جیسا حشر نہ ہونے پائے۔ ویسے ہونا ہوانا کچھ نہیں، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کے ”چیف صاحب” کون ہیں اور ان کی پہنچ کہاں تک ہے۔ پہلے انہوں نے مہنگی چینی خریدی، سکینڈل سامنے آیا مگر ہوا کچھ نہیں، اس لئے اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔نیب نے مولانا فضل الرحمن کو 28دسمبر تک اپنے اثاثوں کے حوالے سے نیب کے 26سوالات کا جواب دینے کیلئے کہا ہے۔ ایک سوال بڑا دلچسپ ہے، وہ یہ ہے کہ مولانا یہ بھی بتائیں کہ ان کے مدارس کو کہاں سے اور کتنے پیسے آئے؟ نیب کو سوال کرنے اور مولانا کو جواب دینے کا حق ہے مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اس نوعیت کے سوالات مفتی تقی عثمانی، سعید ساجد نقوی، مفتی منیب الرحمن اور حنیف جالندھری سے بھی پوچھے جائیں گے یا نیب کا کام صرف حکومت مخالف مولانا فضل الرحمن کے اثاثوں کی چھان بین رہ گیا ہے۔خیر مولانا فضل الرحمن نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں، جواب وہ بھی ٹکا کر دیں گے۔ یہ بہرطور حقیقت ہے کہ اگر یہ نوٹس اور سوالات اڑھائی سال قبل ہوتے تو احتساب کے عمل کا حصہ ہوتے اب تو صاف سیاسی انتقام قرار پائیں گے اور یہ کہا جائے گا کہ پی ڈی ایم کی تحریک سے گھبرائی حکومت سیاسی انتقام پر اُتر آئی ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں