مدارس کی بندش

صوبائی حکومت نے ملک میں کورونا کی دوسری لہر اور پازیٹو کیس میں نمایا اضافے اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن اتھارٹی کے فیصلے کی روشنی میں صوبے بھر میں دینی مدارس میں درس وتدریس سے متعلق تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ صوبائی محکمہ داخلہ وقبائلی امور نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ سیکرٹری داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے عوام کے بہتر مفاد میں یہ فیصلہ کیا ہے، علماء حضرات کورونا وائرس سے نمٹنے تک حکومت کیساتھ تعاون کریں۔ جہاں تک کورونا وباء سے نمٹنے کا تعلق ہے صوبائی دارالحکومت پشاور کے کئی علاقوں میں سمارٹ لاک ڈائون کے احکامات پہلے ہی جاری کئے جاچکے ہیں۔ البتہ جہاں تک تعلیمی اداروں یعنی سکولوںاور کالجوں وغیرہ کا تعلق ہے تو ان پر اس قسم کی پابندی جزوی طور پر یوں لگائی گئی ہے کہ تمام طلبہ کو ہفتے میں دو دو دن کیلئے حاضری کی پابندی عاید ہے یعنی کسی بھی تعلیمی ادارے کے تمام طلبہ وطالبات روزانہ کلاسوںمیں نہیں آتے اسی طرح بعض اداروں نے آن لائن کلاسز کا اجراء کر رکھا ہے تاکہ کلاسوں میں جم غفیر اکٹھا ہو کر وائرس کے پھیلائو کا سبب نہ بن سکے ،اب صوبائی حکومت کے تازہ اقدام پر وفاق المدارس کی صوبائی شاخ کیا ردعمل دیتی ہے اس سے قطع نظردنیا بھر میں ایک بار پھر کورونا کی جو صورت بن رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ متعلقہ حلقے حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے مناسب رویہ اختیار کریں، بے جا ضد اور ہٹ دھرمی سے صورتحال خراب ہونے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب جنوبی افریقہ اور برطانیہ سے آنے والی خبریں بہت تشویشناک ہیں جن کے مطابق کورونا کی ایک نئی وائرس دریافت ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان ممالک نے کرسمس تقریبات کو محدود کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے گویا کوڈ19سے نمٹنے کیلئے اب تک دنیا بھر میں جو اقدام اُٹھائے گئے اور مختلف ممالک نے جو ویکسین بنایا ہے اس نئی قسم کے وائرس آنے سے اب دنیا پھر نئی تحقیق کیلئے سر جوڑنے پر مجبور ہوگی۔ بہرحال مسئلہ مدارس کی بندش کے احکامات کا ہے اور اس حوالے سے بہتر ہوگا کہ مدارس کی انتظامیہ حکومت کیساتھ مل کر مسئلے کا مناسب حل تلاش کرے اور اسے انا اور ضد کا مسئلہ نہ بنائے۔
صحت انصاف کارڈ کی سہولت
خیبرپختونخوا کے وزیرتعلیم شہرام خان ترکئی نے اعلان کیا ہے کہ نئے سال کے آغاز پر یکم جنوری سے 31جنوری2021ء تک صوبے کے ہر باشندے کو صحت انصاف کارڈ ان کی دہلیز پر ملے گا، ہر شہری کا شناختی کارڈ اس کا صحت کارڈ تصور کیا جائے گا۔ جہاں تک صحت کی سہولیات کا تعلق ہے تحریک انصاف نے پرویز خٹک کے دور ہی سے صوبے میں اقتدار سنبھالنے کے بعد صحت کے شعبے میں مبینہ طور پر انقلابی تبدیلیاں لانے کے نہ صرف اعلانات، بلند بانگ دعوے کئے جاتے رہے اور عوام کو اس حوالے سے خوشخبریاں بھی دی جاتی رہیں تاہم عملی اقدامات کے حوالے سے جو افراتفری پیدا ہوتی رہی اس کے نتیجے میں کبھی مختلف امراض کے ماہرین استعفے دینے پر مجبور ہوئے، اکثر نے ملک چھوڑکر بیرون ملک جانے کو ترجیح دی اور کبھی جونیئر ڈاکٹرز کے علاوہ پیرا میڈیکل سٹاف وقتاً فوقتاً احتجاج اورہڑتالیں کر کے الزامات لگاتے رہے کہ حکومت کی اختیار کی ہوئی پالیسیاں نا قص اور نا قابل عمل ہیں۔ حکومت ان مسائل سے جس طرح نمٹتی رہی اس سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوا،صحت کے انصاف کارڈ کی بازگشت بھی وقتاً فوقتاً سنائی دیتی رہی ہے تاہم ابتداء میں جن لوگوں کو یہ سہولت دی گئی ان کے حوالے سے اس قسم کی خبریں بھی زیر گردش رہی ہیں کہ ان کو پرائیویٹ ہسپتالوں سے صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے مبینہ طور پر ٹکا سا جواب ملتا رہا ہے تاہم اس صورتحال کے پیش نظر اب غالباً صحت سہولت کارڈ کو سرکاری ہسپتالوں سے منسلک کرنے کا سوچا گیا ہے جبکہ ایک تو ان دنوں کورونا کی دوسری لہر کے آنے سے ہسپتالوں کو صرف کوویڈ19کے مریضوں کی دیکھ بھال تک محدود کر دیا گیا ہے یا پھر انتہائی اہم ایمرجنسی کیسز ہی کو دیکھا جا رہا ہے، دوسرے یہ کہ بعض اہم سہولیات بھی ہر ہسپتال میں دستیاب نہیں ہیں اور مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں اور اداروں کو ریفرکردیا جاتا ہے،اس لئے ایسی صورت میں مریضوں کو سہولیات کی فراہمی کا کیا بنے گا؟ مستزاد یہ کہ اصولی طور پر صحت انصاف کارڈ کے حوالے سے اعلان وزیرصحت کو کرنا چاہئے نہ کہ وزیر تعلیم کو بہرحال حکومت کے اچھے اقدام کو سراہا جانا چاہئے اور جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے اُمید ہے اس پر پوری طرح عمل کر کے عوام کی داد رسی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !