تنہا پرواز نہیں!!

آرمی چیف جنرل عاصم منیرکی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہاگیا ہے کہ ضم شدہ اضلاع میں پاک فوج پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروںا کو فرائض کی انجام دہی کے قابل بنانے کیلئے ہر ممکن مدد اور تعاون فراہم کرتی رہے گی۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ضلع اورکزئی کا دورہ کیا اور وادی تیراہ اور گردونواح میں حال ہی میں کی گئی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات کے دوران کہی اس موقع پر آرمی چیف کو سیکورٹی کی مجموعی صورتحال، انٹیلی جنس کی بنیاد پر جاری انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور ضم شدہ اضلاع میں استحکام کو یقینی بنانے کے لئے کیے جانے والے کثیر الجہتی اقدامات کے بارے میں جامع بریفنگ دی گئی۔آرمی چیف نے خیبر پختونخوا میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاک فوج خیبر پختونخوا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو نئے ضم شدہ اضلاع میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے قابل بنانے کے لئے ہر ممکن مدد اور تعاون فراہم کرتی رہے گی۔سی او اے ایس نے سیکورٹی فورسز کے تعاون و مدد کے حوالے سے مقامی آبادی کی حمایت کو سراہتے ہوئے کہا کہ علاقے میں امن و امان کو برقرار رکھنے میں ان کا مثبت کردار انتہائی ضروری ہے۔آرمی چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب صوبے کے بعض اضلاع میں پولیس اہلکاروں کی جانب نہ صرف اپنے محکمے کے حوالے سے شکایات کا اظہار کیا گیا تھا بلکہ فوج کی تعیناتی اور باہمی تعاون کے حوالے سے بھی ان کے تحفظات اور خدشات اس قدر سنگین تھے کہ پولیس کی جانب سے مشترکہ طور پر خدمات کی انجام دہی سے انکار کے جذبات کا بھی ا ظہار بھی سامنے آیا تاہم اب جذباتی صورتحال نہیں رہی اور ان کے تحفظات سن کرتحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کے بعد حالات معمول پرآگئے ہیں اب یہ ان پولیس افسران کا امتحان ہو گا کہ انہوں نے جن مطالبات کو مان کر پوری کرنے کی حامی بھر لی ہے اسے پورا کرنے کی کس حد تک استطاعت اور صلاحیت رکھتے ہیں بصورت دیگر کیا نئی صورتحال سامنے آتی ہے اس بارے وثوق سے تو کچھ نہیں کیا جا سکتا البتہ اس امر کا خدشہ ضرور ہے کہ شرط اول پر عملدرآمد شاید ہی ہو سکے نیز زمینی حقائق اور حالات بھی اس قدر تسلی بخش اور معمول پر نظر نہیں آتے کہ پولیس تن تنہا امن و امان کی صورتحال اور بالخصوص دہشت گردوں سے پنجہ آزمائی میں غالب آسکے۔ اگرچہ خیبر پختونخوا پولیس کی انسداد دہشت گردی میں خدمات اور قربانیاں بے پناہ ہیں اور ان کا عزم و حوصلہ بھی قابل تحسین ہے لیکن اس کے باوجود پولیس کی کارکردگی معمول کے حالات میں امن و امان برقراررکھنے ہی کی ہو اور اس تناظر میں اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ضم اضلاع جنوبی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن کے بعض اضلاع سرحدی و علاقے تو درکنار صوبائی دارالحکومت پشاور میں راہزنی کھلے عام اور منشیات فروشی و نشے کے عادی افراد کی محدود مجرمانہ سرگرمیوں پر ہی قابو پانے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر پارہی ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ مشترکہ و مربوط کوششوں کی متقاضی ہے اس کے باوجود ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں پولیس اہلکاروں کو مشترکہ مساعی پر تحفظات ہیں ان کو دور کرنے کیلئے بالائی سطح پرہی نہیںبلکہ اس سطح پربھی جو فیلڈ ڈیوٹی کے اہلکار ہیں ان کی سطح پر ان کے اطمینان کے حامل مکالماتی ا قدامات کی اشد ضرورت ہے ان کی سنی جائے اور ان کے تحفظات اور غلط فہمیاں دور کرنے کی ذمہ داری پوری کی جائے اور ایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں اعتماد کی فضا کے ساتھ باہمی روابط مضبوط ہوں ایسا تبھی ممکن ہوگا جب یکطرفہ طور پر فیصلے اور اقدامات سے گریز کیا جائے اور بالادستی وتحکمانہ انداز ترک کرکے پولیس کو بھی برابر کی وقعت دی جائے اور ان کو برابر کا شریک کار تصورکرکے عملی طور پر اس کی پیروی بھی ہو۔ جہاں تک بری فوج کے سربراہ کے بیان کا تعلق ہے ہم سمجھتے ہیں کہ محولہ عوامل ضرور بالضرور ان کے مدنظر ہوں گی اور اس کے مطابق اقدامات کے ساتھ وہ انسداد دہشت گردی کے خصوصی مد میں پولیس اور فوج کے باہمی تعاون میں مزید اضافہ اور روابط میں بہتری لانے کیلئے اقدامات یقینی بنا کر اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے حامل مزید اقدامات کے احکامات جاری کریں گے آرمی چیف نے فوج اور پولیس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پربھی کثیر الجہتی تعاون بڑھانے کا جو عندیہ دیا ہے اگر چہ اس کی سعی ہر وقت ہوتی رہی ہے اور عملی طور پر اس طرح کے اقدامات بھی ہوتے آئے ہیں تاہم اب تبدیل شدہ حالات کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر گرائونڈ انٹیلی جنس اور عوام کے روابط کو نئے انداز میں حالات کے تقاضوں کے مطابق بنانے کا عمل ناگزیر ہے ۔

مزید پڑھیں:  قومی ترانے کی بے حرمتی