بیربل اور آئی ایم ایف کے مطالبات

گورنر سٹیٹ بینک نے آج خبر دی ہے کہ آئی ایم ایف کے علاوہ بین الاقوامی نجی شعبے سے دو ارب ڈالر قرض کی یقین دہانیاں حاصل ہوگئی ہیں ، اس لیے آئی ایم ایف پروگرام کے حصول میں کسی مطالبہ کی شرط رکاوٹ نہیں بنے گی ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اس ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف اجلاس کے دوران ہم اپنے مُلک کا مقدمہ پیش کریں گے جس میں مطالبات پور ے ہونے کے نتیجہ میں ایک خطیر رقم ہمیں ادا کی جائے گی۔
جب کوئی ملک دیوالیہ ہو جائے یا دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہو اور کوئی دوسرا ملک اُسے قرض دینے کے لیے تیار نہ ہو تو یہ آئی ایم ایف ہی ہے جو اُسے بیل آئوٹ پیکیج دیتا ہے۔ لیکن یہ بیل آئوٹ پیکیج دینے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اُن معاشی اصلاحات کا مطالبہ بھی کرتا ہے جو اُس کے نزدیک قرض لینے والے ملک کی معیشت کو فوری مستحکم کرنے کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں جب ان مطالبات کو پورا کیے جانے میں مشکل پیش آئی تو چند دوست اہل اقتدار اور ماہرین کا مذاق اُڑانے لگتے کہ یہ لوگ آئی ایم ایف کے کسی سوال کا جوا ب نہیں دے سکتے ۔
آئی ایم ایف کی طرف سے بھی ان کے گزشتہ پروگرام کی پیچیدہ شرائط ہمارے حکمرانوں اور خاص کر عوام کے لیے بہت کڑی ثابت ہوئیں ۔ اس حوالہ سے مجھے ایک قصہ یاد آیا ، مغل بادشاہ اکبر جب اپنے نورتن بیربل سے بہت خوش ہوا تو اُسے کہا کہ مانگ کیا مانگتا ہے ؟ ما بدولت اسے پورا کریں گے ۔ بیربل نے عرض کی کہ حضور کے اقبال سے بندہ ہر طرح سے سکھی ہے اور پھر مطالبات کاپورا کرنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔ اکبر جوش میں آیا اور حکم دیا کہ ایک نہیں پورے پانچ مطالبات پیش کیے جاویں جو پورے کیے جائیں گے ۔سلطنت مغلیہ کے آگے پانچ مطالبات کا پورا کرنا کس طرح مشکل ہو سکتا ہے لہذا فوراً مطالبات بیان کیے جاویں ۔ اس پر بیربل نے کہا حضور جان کی امان پاوں تو مطالبات پیش کرتا ہوں ۔ شہنشاہ معظم کی اجازت پر بیربل نے کہا مہابلی مجھے ایک ہاتھی منگوا دیں ۔ ہاتھی آیا تو بیربل بڑا خوش ہوا ۔ اب اُس نے دوسرا مطالبہ پیش کیا کہ جہاں پناہ مجھے ایک لوٹا منگوا دیں ۔ اکبر نے فوری طور پہ ایک سونے کا جڑاؤ لوٹا منگوا دیا ۔ وہ مزید خوش ہوا کہ دو مطالبے پورے ہو گئے ۔
بیربل نے کہا کہ مہاراج میرا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ کہ اب ہاتھی کو اس لوٹے میں ڈال دیا جائے ۔ اس پر خود شہنشاہ معظم اور تمام اہل دربار حیران ہو گئے ، درباریوں نے سمجھایا کی بیربل دیوانے مت بنو اور یہ ناممکن مطالبہ واپس لے لو ،بھلا لوٹے کے اندر ایک ہاتھی کیسے جا سکتا ہے ؟ اگر تم اصرار ہی کرتے ہو ہم کسی کپڑے کے بنے ہوئے ہاتھی کو اس سونے کے لوٹے میں ٹھونس دیتے ہیں ۔ بیربل نے کہا کہ چلو ہم بھی اپنے مطالبے میں کچھ لچک پیدا کر لیتے ہیں اور اس متبادل تجویز کو مان لیتے ہیں ۔ چنانچہ ایک ہاتھی نما کھلونا کسی طرح کھینچ تان کر لوٹے میں زبردستی گھسیڑ دیا گیا ، یوں تیسرا مطالبہ بھی پورا ہو گیا ۔ بیربل نے کہا کہ عالم پناہ ! میرا چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ اب اسی لوٹے میں پڑے ہوئے ہاتھی کو لوٹے کی ٹوٹی کے راستے سے باہر نکال دیں ۔ اس پر پھر خاموشی طاری ہو گئی ، تمام دربار حیران تھا ۔ بیربل نے عرض کیا کہ مہاراج اگر آپ یہ چوتھا مطالبہ جو کہ بالکل بے ضرر اور جائز ہے ، پورا کر دیں تو مَیں مطالبات کے منوانے اور سودا کاری کے مقبول طریقہ کار کے مطابق اپنا پانچواں مطالبہ خود سے واپس لے لیتا ہوں لیکن چوتھا مطالبہ ضرور پورا کرنا ہو گا کہ ہاتھی کو اس لوٹے کی ٹوٹی سے باہر نکال دیا جاوے ۔
اس پر شہنشاہ ہند جو تلوار کا دھنی تھا ، جس نے صرف بارہ سال کی عمر میں پانی پت کی دوسری جنگ جیتی تھی اور جس نے بڑے بڑے حریف کو ہر میدان میں ہمیشہ عبرتناکہزیمت دی تھی ، وہ ایک ناجائز اور مشکل مطالبہ کو پورا نہ کرنے سے شکست کھا گیا ۔
آئی ایم ایف کے ارباب ِ اختیار سے یہی گزارش ہے کہ وہ ہاتھی اور لوٹے قسم کے مطالبات اور کڑی شرائط کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ہمارے لیے نرم گوشہ اپنائیں ۔ اسی طرح اپنے اہل اقتدار سے بھی یہی استدعا ہے کہ وہ اپنے حالات پر نظر رکھیں ، کم از کم اپنے درباریوں کو اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ اپنی چادر تک ہی پاؤں پھیلائیں ۔ آئی ایم ایف کے پرانے پروگراموں میں ہم مختلف مدات میں ٹیکس اکٹھا کرکے یا کہیں نہ کہیں سے پیسہ بچا کر یا نکال کر جیسے تیسے چند ایک اہداف حاصل کر لیتے تھے ، کسی مطالبہ میںرعایت بھی لے لیتے تھے۔ لیکن کبھی ناگزیر معاشی اصلاحات کو ترجیح نہیں بنایا۔ٹیکس کا بوجھ بھی صرف تنخواہ دار طبقے پر ڈالا جاتا رہا ہے اور زراعت، ریٹیلز، ٹریڈرز اور ان جیسے دیگر کئی شعبہ جات پر ان کے کاروباری حجم کے مطابق ٹیکس عائد نہیں کیا گیا اور اُن طبقات کو بھی ٹیکس نیٹ میں نہیں لائے جن کی ماہانہ آمدنی لاکھوں، کروڑوں میں ہے۔ اب بھی اُن معاشی اصلاحات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی جو ملکی معیشت کو استحکام سے آگے ترقی اور مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ایک مثال توانائی کا بحران اور مہنگی بجلی پر قابو پانا ہے ۔ معاشی اصلاحات کیے بغیر صرف قرض لیتے رہنے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ صرف بیل آئوٹ پیکیجز سے ملکی معیشت کی سمت درست نہیں کی جا سکتی۔

مزید پڑھیں:  بی آر ٹی بسوں میں خواتین کی ہراسگی