p613 317

مشرقیات

رات کا وقت تھا لوگ اپنے اپنے گھروں میں جمع تھے ۔ کسی کام سے حضرت طلحہ اپنے گھر سے نکلے وہ اپنے راستے پر جار ہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کوئی شخص ان کے آگے آگے جارہا ہے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سڑکوں پر روشنی کا انتظام تھا نہ بڑی بڑی سڑکیں ہوتی تھیں ۔ یہ شہر جس کی ایک گلی میں حضرت طلحہ نے کسی کو دیکھا مدینتہ النبی تھا ۔ حضرت طلحہ کچھ آگے بڑھے تو اندھیرے ہی میں انہوں نے پہچان لیا کہ یہ حضرت عمر بن خطاب ہیں ۔ چاہا کہ آگے بڑھ کر ان سے مل لیں مگر اوزاعی کی روایت ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیتہ الا دلیا ء میں دی ہے کہ حضرت عمر جلدی سے ایک بوسیدہ خیمے میں گھس گئے ۔ حضرت طلحہ ان کا انتظار کرتے رہے ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمر ایک اور خیمے میں گھس گئے ۔ حضرت طلحہسمجھ گئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں جب صبح ہوئی تو اس خیمے میں پہنچے جس میں حضرت عمر پہلے داخل ہوئے تھے ۔آواز دے کر اندر گئے تو دیکھا اس میں ایک بوڑھی عوت رہتی ہے ۔ آنکھوں سے اُسے دکھائی نہیں دیتا، کچھ دیر کیلئے وہ اس کے پاس بیٹھ گئے پھر اس سے بولے تیر ا کام کاج میں کردیا کروں گا ؟ اس نے کہا نہیں بیٹا اب مجھے کسی کی ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ روزانہ ایک فرشتہ میری خدمت کے لئے بھیجتا ہے ۔ وہ میری ضرورت کے سب کام کردیتا ہے حضرت طلحہ نے پوچھا تم پہچانتی ہو کہ وہ کون ہے ؟ وہ عورت بولی نہیں بیٹا !میں نے کبھی اس سے نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے ۔ جب یہ تفصیل اس سے معلوم ہوئی تو حضرت طلحہ بے اختیار اپنے دوست کو دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئے۔ صحابہ کرام نے یہ ساری باتیں اللہ کے رسول ۖ سے سیکھی تھیں ۔ حضور اکرم ۖ لوگوں کے دکھ در دمیں شریک ہونے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے ۔ جو بوڑھے ، بیمار پریشان حال ہوتے آپ ۖ خاص طور سے ان کی خبر گیری کرتے ۔ ان کے لئے بازار سے سودا لا دیتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں آپ ۖ گھر میں ہوتے تو گھر کے کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹا تے حتیٰ کہ جھاڑودیتے ، کپڑے سیتے ۔ حضرت ابور رافع اسلم کہتے ہیں جب کبھی میں آٹا گوندھتا ہوتا اور آپ کسی کام سے مجھے اٹھا دیتے ۔ تو بیٹھ کر میرا آٹا گوند ھتے ۔ میرے ماں باپ آپ ۖ پر قربان ہوں آپ ۖ کو کس درجہ ہم لوگوں کا خیال رہتا تھا ۔ عدی بن حاتم ذکر کرتے ہیں جب میں پہلی مرتبہ اللہ کے رسول ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک بڑھیا آپ ۖ کے دروازے پر آئی آپ ۖ اس کے ساتھ نکل پڑے ، جو الفاظ میں نے آپ ۖ کی زبان مبارک سے سنے وہ یہ تھے کہ اے خاتون ! تو جہاں چاہے مجھے لے جا میں تیرے ساتھ چل کر تیرا کام کردوں گا ! وہ معاشرہ جس میں ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھا جاتا اس میں اتحاد محبت اور اخلاص کے جذبات کم ہو جاتے ہیں اور لوگوں میں خود غرضی بڑھ جا تی ہے ۔ اسلام ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتا ہے جس میں سب ایک دوسرے کے رفیق اور ساتھی ہوں ۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز