مشتبہ دھماکہ یادہشتگردانہ حملہ؟

چینی ماہرین کی ٹیم کی بس میں مشتبہ دھماکہ کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اور بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی کو دیسی ساختہ بم حملے کا نشانہ بنانے کے واقعات غیر متوقع واقعات بالکل نہیں بلکہ موجودہ حالات میں اس کے عین خطرات متوقع تھے انہی سطروں میں اس کا ایک سے زائد مرتبہ خدشات کا اظہار بھی ہو چکا ہے خدانخواستہ اس طرح کے مزید واقعات خارج ازامکان نہیں ۔ ابھی چینی ہنرمندوں کی بس کوحادثہ پیش آنے سلینڈر پھٹنے یا نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے کوئی مصدقہ اطلاع اور صورتحال سامنے نہیں آئی البتہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین نے اس حادثے کو بم دھماکہ قرار دیتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پاکستان نے اس واقعے کو تکنیکی نقص کی وجہ سے گیس لیکیج کے باعث دھماکہ قرار دیا ہے۔اپر کوہستان کے حکام کے مطابق بدھ کی صبح شاہراہ قراقرم پر داسو ہائیڈرو ڈیم کی سائٹ کے قریب بس کو حادثہ پیش آیا ۔ اے ایف پی کے مطابق چین کے دفتر خارجہ کے ترجمان ژا لیژین نے دھماکے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی اور چین میں پاکستان کے اندر مختلف پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی کارکنان کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بدھ کی صبح صوبہ خیبر پختونخوا میں چینی کارکنوں کی بس ایک تکنیکی خرابی کے باعث گہری کھائی میں جا گری اور اس کے باعث گیس لیک ہونے سے ایک دھماکہ ہوا۔ اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔دریں اثناء بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر بم حملے میں ایک افسر سمیت دو فوجی شہید جبکہ تین زخمی ہوگئے ہیں خیال رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ دو ماہ کے دوران سکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت دیکھی گئی ہے۔صوبے میں سرگرم مذہبی اور علیحدگی پسند کالعدم مسلح تنظیموں کی جانب سے کوئٹہ، ژوب، بولان، تربت اور گوادر میں فورسز پر حملوں میںتیس سے زائد اہلکارشہید ہوچکے ہیں۔اس بارے دوسری رائے نہیں کہ پاکستان اور چین قریبی دوست اور مشکل وقت کے ساتھی ہیں پاکستان چینی باشندوں ‘ پراجیکٹس اور اداروں کی سیکورٹی کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ان دونوں واقعات کا سرحد پار کے حالات سے کوئی تعلق ہے یا نہیں اس حوالے سے کوئی رائے قائم کرنامشکل ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور عالمی افواج کی خطے سے ناکام واپسی کے اثرات خطے پر پڑنا فطری امر ہے اگرچہ امریکہ اور اتحادی افواج کی بحفاظت وطن واپسی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے اس کے باوجود سی پیک کو درپیش ممکنہ خطرات سے نمٹنا دونوں ممالک کے لئے چیلنج سے کم نہیں چینی ہنرمندوں کی بس کو اگر حادثہ پیش آیا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ انسانی غفلت اور غلطی پر مبنی حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن حالات کے تناظر میں اور چین کی طرف سے اسے حملہ قرار دیئے جانے کے بعد اسے اس وقت تک اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے جب تک حقیقی صورتحال سامنے نہ آئے جس کا تقاضا ہے کہ چینی ہنر مندوں کی حفاظت کے انتظامات کو مزید سخت کیا جائے ان کی آمدورفت کے راستوں کو محفوظ بنانے کے لئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہو گی ان کی آمدورفت کو ممکنہ حد تک خفیہ رکھنے اوربوقت ضرورت ٹریفک روکنے کی بھی نوبت آئے تو اس سے گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی خواہشمند قوتوں کے سرگرم ہونے کا ثبوت بلوچستان میں حملوں کے بڑھتے واقعات بھی ہیں افغانستان میں ایک دور کا خاتمہ ضرور ہوا ہے لیکن خفیہ اداروں کی جنگ اب تیز ہونے کا خطرہ ہے جس میں امریکی ‘برطانوی’ فرانسیسی اور اسرائیلی ایجنسیوں اور پاکستان اور چین کی سلامتی کے اداروں کے درمیان پنجہ آزمائی غیر متوقع نہیں جس کا یقیناً ادراک موجود ہو گا اور اس کی تیاری بھی ہو گی ایسے میں اس طرح کے نرم اور حساس اہداف کو نشانہ بنانے کے زیادہ خطرات ہیں جس کی روک تھام کے لئے ہر سطح پر حفاظتی اقدامات اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔چین کو نہ صرف فول پروف حفاظتی اقدامات کا یقین دلانے کی ضرورت ہے بلکہ ان کے لئے قابل اطمینان اقدامات کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ سی پیک اور دیگر اہم منصوبوں پر کام میں خلل واقع نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟