Mashriqyat

آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی کو نااہل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم کو شرم آنی چاہیے بیوروکریسی کام نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اکتوبر2005کے قیامت خیز زلزلے کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں تباہ ہونے والے سکولوں کی عدم تعمیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ زلزلہ کے16سال گزرنے کے بعد بھی سکول تعمیر ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے، اربوں روپے مختص ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، جن علاقوں میں اسکول بنے وہ بھی مکمل فعال نہیں۔عدالت عظمیٰ کے ان ریمارکس میں مزید اضافہ کی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ ان کی صداقت اور برمحل ہونے کی تائید کی جائے اور حکام کو آئینہ دکھایا جائے عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے سکولوں کی عدم تعمیر کا ملبہ ایرا پر ڈال دیا، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے موقف اختیار کیا کہ زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی ایرا کی ذمہ داری تھی۔سپریم کورٹ نے زلزلہ متاثرہ اضلاع میں تباہ ہونے والے540اسکولوں کو6 ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین ایرا کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں رپورٹ کے ہمراہ طلب کرلیا۔ان کا بھی عدالت میں موقع عذر لنگ کے سوا کیا ہو گا کہ سولہ سال کی غفلت ولاپراہی اور غیر ذمہ دارانہ کردار کا کیا جواز پیش ہوسکتا ہے بہرحال ابھی ان کا موقف آنا باقی ہے جس کے بارے میں عدالت ہی بہتر فورم ہے۔ معزز جسٹس صاحبان کا بھی عام انسانوں کی طرح جذبات میں آنا فطری امر ہے لیکن عموماً وہ ٹھنڈے مزاج اور تحمل کا مظاہرہ ہی کرتے ہیں اس کے باوجود جب وہ کسی حوالے سے سخت ریمارکس دیتے ہیں تو ان کا جذبات میں آنا بلاوجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں جس کے سبب دلی جذبات الفاظ کی شکل میں باہر آہی جاتے ہیں چیف جسٹس کی جانب سے سولہ سال قبل زلزلے کے باعث گرنے والے سکولوں کی عدم تعمیر پر برہمی فطری امر ہے انہوں نے جو ریمارکس دیئے ہیں ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں بیورو کریسی اور ایرا کو ان ریمارکس کی روشنی میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے یہ عوام کے سمجھنے کی بات نہیں کہ کونسا محکمہ وفاقی و صوبائی ضلعی اور مقامی کن امور کا ذمہ دار ہے عوام اجتماعی طور پر حکومت ہی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور مشکلات و شکایات کے ازالے کرنے کی ذمہ داری حکومت وقت کی سمجھتے ہیں جس میں وہ حق بجانب ہیں۔ دیکھا جائے تو ان سولہ سالوں میں صوبے اور مرکز میں مختلف جماعتوں کی حکومت رہی اس لئے کسی خاص حکومت کو مطعوں کرنا قرین انصاف نہ ہو گا ۔ سیاسی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ان کی ترجیحات ومسائل اپنی جگہ مگر بیورو کریسی کی صورت میں جو حقیقی انتظامی و مستقل ڈھانچہ موجود ہے اگر اس کی کارکردگی پر عدالت عظمیٰ کے سربراہ برہمی کا اظہار کرتے ہیں تو یہ حد درجہ سنجیدہ معاملہ ہے سیاسی حکومتیں بھی بری الذمہ ہر گز نہیں اور نہ ہی بیورو کریسی اور کوئی ایک ادارہ بری الذمہ یا قصور وار گردانا جا سکتا ہے یہ حکومت اور انتظام حکومت چلانے والے بابوئوں اور خاص طور پر متعلقہ ذمہ دار ادارے کی غفلت کی انتہا ہے کہ سولہ سال بعد عدالت کو از خود نوٹس پر محولہ ریمارکس دینے پڑے۔ زلزلہ سے تباہ ہونے والے پانچ سو چالیس سکولوں کی تعمیر کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ جس نیو بالا کوٹ سٹی کا عندیہ دیا گیا تھا اور کروڑوں روپے خرچ ہوئے اراضی کی خریداری پر رقم بھی لگی اب تک اس بستی کو بس جانا چاہئے تھا مگر اس کی ایک اینٹ بھی ابھی نہیں لگی چونکہ صوبے میں موجودہ حکومت پہلے حکومت کا تسلسل ہے اور حکومت وقت ہے اس لئے موجودہ حکومت ہی پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ماضی کی حکومتوں کا احتساب ضرور ہونا چاہئے آج کے حکمران اور آج کی حکومت کو ہی بہرحال اب اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا ہے عدالت عظمیٰ نے چھ ماہ میں سکولوں کی تعمیر مکمل کرنے کی جو ہدایت کی ہے اس حوالے سے ایرا کی استعداد کتنی ہے اور اس دورانیے میں یہ مکمل ہو سکیں گے ان سوالات سے قطع نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ تعلیم اور صوبے کی بیورو کریسی و ایرا کے حکام سبھی کو اس ان سکولوں کی تعمیر اور نیو بالا کوٹ سٹی کی تعمیر کے کام میں جت جانا چاہئے ان سولہ سالوں کے دوران متاثرین پر کیا گزری اور طالب علموں کی تعلیم کا کتنا حرج ہوا اس کا جائزہ ہی بے محل ہو گا کیونکہ اب اس کا ازالہ ممکن نہیں کم از کم اتنی سعی ہونی چاہئے کہ آئندہ ان کو اس طرح کے حالات سے جلد سے جلد نکالا جائے اور عدالت عظمیٰ کے احکامات کی تعمیل کی عملی و حقیقی کوشش کی جائے ۔

مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!