”اسلاموفوبیا کے خلاف ایک اور کامیابی”

بالآخر امریکی مسلمانوں کی برسوں سے جاری کاوشیں رنگ لا رہی ہیں جو وہ ایک عرصے سے اسلاموفوبیا کے خلاف جد و جہد کی صورت میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب مسجدوں میں سی آئی اے کے جاسوسوں کا پہرہ لگا رہتا تھا تاکہ ان پر نظر رکھی جاسکے کہ آیا کوئی دہشت گردی کی کاروائی تو نہیں ہورہی۔ خواتین کو حجاب پہننے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا جبکہ کئی مغربی ممالک نے تو خواتین کے عوامی مقامات پر حجاب پہننے پر ہی پابندی عائد کردی تھی اور مسلمانون سے ایسا سلوک کیا جاتا تھا گویا وہ کوئی انسان ہی نا ہوں بلکہ کوئی اچھوت ہوں۔ امریکی مسلمان جو سیاہ فام امریکیوں کی طرح اپنی پہچان کی جنگ لڑ رہے تھے اس میں بالآخر انہوں نے ایک اور قدم اٹھا لیا۔ الہان عمر جو نا صرف مسلمان سیاست دان ہیں بلکہ سیاہ فام کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک ایک صومالی نژاد ہیں۔ انہوں نے امریکی ایوانِ نمائندگان میں اسلاموفوبیا کے خلاف بل پیش کیا ہے جس کے مسودے کے مطابق امریکہ میں باقاعدہ اسلاموفوبیا کے خلاف ایک ڈیپارٹمنٹ تشکیل دیا جائے گا جس کی ذمے داری یہ ہوگی کہ یہ نا صرف امریکہ میں بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمانوں پر مظالم ہونگے یا ان کی حق تلفی کی جائے گی انہیں مانیٹر کرے گا بلکہ ان ممالک پر پابندیاں لگانے کی سفارشات بھی امریکی حکومت کو پیش کرے گا۔ اگرچہ امریکہ میں پہلے ہی ایک ادارہ موجود ہے جو ہر سال ”بین الاقوامی مذہبی آزادی ” کے نام سے ایک رپورٹ تیار کرتا ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس ملک میں کتنی مذہبی آزادی ہے مگر اس رپورٹ میں محض نشاندھی کی جاتی ہے جبکہ اس نئے بل کے تحت بننے والا ادارہ صرف اسلاموفوبیا پر ہی نظر رکھے گا اور اسی کی بنیاد پر قصوروار ملک کو پابندیوں کی صورت میں سزا بھی دے گا۔ الہان عمر نے یہی بل اس سے پہلے بھی پیش کیا تھا مگر وہ اس میں کامیاب نا ہوسکی تھی۔ مگر اس مرتبہ جب انہوں نے بل پیش کیا تو ری پبلکن نمائندہ لورین بوبرٹ نے اس کی نا صرف مذمت کی بلکہ انتہائی نسل پرستانہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے الہان کو ”دہشت گرد”تک کہہ دیا تھا۔ بوبرٹ کی متعصبانہ گفتگو سن کر ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران الہان کی حمایت میں آئے اور اکثریت سے اس بل کو منظور کروایا۔ چنانچہ بل تو ایوان نمائندگان سے منظور ہوگیا مگر اصل سوال یہ ہے کہ آیا یہ بل سینٹ سے بھی پاس ہوگا یا نہیں کیونکہ سینٹ میں کسی بھی قانون کو منظور کرانے کے لئے کم سے کم60 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس اس وقت 48نشستیں ہیں اور اسی طرح دو آزاد اور50 ری پبلکن ووٹرز ہیں۔ بہرحال امکان تو یہی ہے کہ بل سینیٹ سے
منظور نہیں ہوگا مگر کم سے کم ایوانِ نمائندگان سے منظوری سے یہ فائدہ ہوا کہ اب دنیا بھر میں اس امریکی اقدام پر سوچا جا رہا ہے کہ جس طرح ہولوکاسٹ سے انکار کرنا ایک جرم ہے اسی طرح اسلاموفوبیا کو بھی باقاعدہ ایک جرم قرار دیا جانا چاہیے یا نہیں۔ اس بل کے منظور ہونے سے ایک زاویہ یہ بھی نکلتا ہے کہ امریکہ اس کی آڑ میں یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اسے اپنے ملک کے مسلمان شہریوں کی کس قدر پرواہ ہے۔ اور پھر اسی کو بنیاد بناکر چین کو اویغور مسلمانوں سے متعلق دبائو میں ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ اس بِل کی سب سے خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کے تحت قائم ہونے والے ادارے میں امریکہ کے مسلمانوں کو ہی تعینات یا جائے گا۔ الہان عمر نے اگرچہ چینی اویغور مسلمانوں کا ذکر کرکے چین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہی ہے مگر ساتھ ہی اس نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منظور ہونے والے متعصبانہ قوانین پر بھی کڑی تنقید کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس بلِ کے قانون بن جانے کے بعد سب سے پہلا مسئلہ بھارت اور چین کا ہی اٹھائیں گی۔ ساتھ ہی فرانس اور اسکیڈینیویائی ممالک پر بھی اب دبائو بڑھے گا جہاں آئے روز توہین آمیز خاکے بناکر مسلمانوں کے مذہبی جذبات ابھار کر انہیں تشدد کرنے کے لئے اکسایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ان عرب ممالک کی عوام بھی قابلِ ستائش ہے جس نے مسلسل فرانسیسی اور بھارتی اشیا کا بائکاٹ کرکے بین الاقوامی سطح پر پیغام دیا کہ وہ اسلاموفوبیا کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے گو کہ اس کا کوئی خاص اثر تو تب نا پڑا مگر اس سے کم سے کم یہ فائدہ ہوا کہ بھارت کا جو ایک سافٹ امیج دنیا کے سامنے بنا تھا وہ اب فاش ہوچکا ہے۔ شک کے زاویے اگر نکال کر اس کو کسی کانسپیریسی تھیوری کی عینک سے نا دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی مثبت اقدام ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اصلاحات آتے جائیں گے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کو اور بالخصوص پاکستان کو بھی اپنی گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ کئی انتہا پسند تنظیمیں اسلام کے نام پر کسی کو بھی قتل کر دیتی ہیں جس سے دنیا بھر میں اسلام کا بول بالا ہونے کے بجائے بدنام ہوتا ہے اور دائیں بازوں کی سوچ رکھنے والے مغربی سیاست دانوں کو موقع فراہم ہو جاتا ہے مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کا۔ چنانچہ امریکہ میں جو ایک بڑی تبدیلی اسلاموفوبیا کے خلاف دیکھنے کو ملی ہے اسے برقرار رکھنے کے لئے مسلمان ممالک کو بھی ایک قدم آگے اٹھاکر ان عناصر کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کا آغاز کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے