پشاور کی واحد سڑک اور ٹریفک ہجوم

کئی برس قبل میرے ایک دوست بین الصوبائی کھیلوں کے سلسلے میں فیصل آباد سے پشاور تشریف لائے۔ وہ چار روز شامی روڈ سے اسلامیہ کالج تک آتے جاتے رہے ۔ ایک دِن پوچھنے لگے کہ کیا ا س سڑک کے علاوہ کوئی دوسری سڑک بھی ہے ۔ مَیں نے نفی میں جواب دیا تو بڑے حیران ہوئے ۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسی سڑک جس پر اسمبلی، عدالتیں، سیکرٹریٹ ، دفاتر، درسگاہیں، ہسپتال، رہائشی علاقے،ہوٹل، تجارتی مراکزاور بس اڈوں کے علاوہ لوگوں کی ایک اکثریت کا روزانہ شہر میں آنا جانا ہو۔اگر کسی حادثہ، ٹوٹ پھوٹ اور غیر معمولی واقعہ کے رونما ہونے سے مشکل کھڑی ہوجائے تو لوگ کہاں جائیں گے اور کیا کریں گے۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ پشاور سے تو فیصل آباد کا گاؤں چک جھمرہ ہی بہتر ہے جہاں کسی ایک راستے میں رکاوٹ پڑ جائے تو لوگ متبادل راستوں سے اپنی منزل پہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہ اُس وقت کی باتیں ہیں جب بی آر ٹی کا وجود نہ تھا۔ کاروں،بسوں ،ویگنوں،رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد بڑھنے اور دیگر شہروں سے لوگوں کی ہجرت کے باعث پشاور کی ہر سڑک اور خصوصاً یونیورسٹی روڈ پہ سکول و دفتر کی چھٹی اور شام کو خریداری کے وقت ٹریفک جام ہونے سے بڑی پریشانی ہونے لگی۔ ایسے میں صوبائی حکومت نے حیات آباد کے لیے خصوصی پُل تعمیر کیا۔ یوں تو قیامِ پاکستان سے ہی یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں قومی، صوبائی اور ضلعی سطح کے منصوبے میں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والوں کی تجاویز کو کم ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس پُل کے منصوبہ میں بھی مکمل پلاننگ اور ٹریفک انجنئیرنگ کے اصولوں کو مدِ نظر نہ رکھا گیا۔ شاہرات کے منصوبوں کا ایک بین الاقوامی ماہرمجھ سے پشاور میں مِلا ۔ وہ دلبرداشتہ تھا کہ اُسی دن اس پُل کی تعمیر کے حوالہ سے ہونے والے اعلیٰ سرکاری اجلاس میں ان کی تجاویز کو اہمیت نہ دی گئی ۔اُس نے بتایا کہ یونیورسٹی روڈ پر ٹریفک کے بہاؤ اور سڑک کے اطراف آمد ورفت کے راستوں کا یہ تقاضا ہے کہ اس پر دو یا تین اوور ہیڈ تعمیر کیے جائیں ۔ جبکہ حیات آباد کی بجائے کارخانو مارکیٹ اور جمرود جانے والی ٹریفک کو اوور ہیڈ سے راستہ دیا جائے۔ اُس ماہر کی تجاویز صحیح تھیں کہ پُل تعمیر ہونے کے باوجود اُسی پُل کے نیچے ٹریفک جام روز کا معمول بن چکا ہے۔ اس کے بعد بی آر ٹی کے منصوبے کا آغاز ہوا۔ شہریوں نے ٹریفک جام کی پریشانیوں سے بچنے اور عمدہ سواری میں آسان سفر کی خاطر اس منصوبے کی تعمیر میں پیش آنے والی مختلف مشکلات کابڑے صبر سے سامنا کیا۔ پشاور کی اس واحد سڑک پہ متعدد تجربات کیے گئے اور بالآخر بی آرٹی مکمل ہوئی۔ لوگوں کو پرانی بسوں اور اس کے تکلیف دہ سفر سے چھٹکارہ ملا اور ایک آرام دہ اور اچھی سواری میسر آئی۔
کسی کو اس کی دوگنی لاگت اور تکنیکی نقائص سے غرض نہیں مگر بی آر ٹی کے بعد بھی لوگ پریشان ہیں کہ اس سڑک پہ ٹریفک کے ہجوم میں کمی نہ آئی ۔اس میں شک نہیں کہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور گاڑیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مگر ہمارے عادات، طرزِ زندگی اورسڑک پر رویہ بھی اس ہجوم کا ایک سبب ہے۔ اس سڑک پر ٹریفک کے روزانہ مشاہدہ سے معلوم ہوگا کہ آدھی سے زیادہ کاریں ایک ڈرائیور کے زیرِاستعمال ہوتی ہیں۔ گویا ایک کار ایک سائیکل کے طور پہ استعمال ہونے لگی ہے۔ صدر کا علاقہ پشاور کا ایک قدیم پُرونق تجارتی مرکز ہے مگر اب یونیورسٹی روڈ پہ تعمیر ہونے والے جدید طرز کے تجارتی مال اور پلازوں نے صدر کو بھی مات دے دی اوریہاں رات گئے رونق دوبالا رہتی ہے۔اس کے علاوہ انواع واقسام کھانوں کے چھوٹے بڑے ریستوراںاور شادی گھروں میں بھی ایک جمِ غفیر ہوتا ہے۔ ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی گاڑی کسی قریبی پارکنگ کی بجائے مطلوبہ جگہ پہ جا کے روکے ۔ اسی باعث دکانوں کے سامنے ہی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ ہر ڈرائیور کی عادت ہے کہ وہ گاڑی چلانے کے دوران موبائل پہ ضرور بات کرے گا، چاہے گاڑی آہستہ کرنے سے اس کے پیچھے دوسری گاڑیوں کی رفتار کم ہو جائے یا آپس میں ٹکرا جائیں ۔ اسی طرح گاڑی چلاتے وقت سب انجانی سی تیزدستی دکھانے میں مبتلا ہوتے ہیں ، کہیں بھی خالی جگہ ملے فوراً اسی جانب گاڑی موڑ لیتے ہیں۔ پولیس بھی موجود ہوتی ہے مگر سڑک کی تنگی اور ٹریفک کے روئیے کا مداوا نہیں کر سکتی۔ پشاور کی اس واحد سڑک پر بی آرٹی کی موجودگی اور جگہ جگہ اس کے سٹیشن کی وجہ سے سڑک کی تنگی نے پہلے بھی چند مخصوص مقامات پرٹریفک کو جام کیے ہوتا لیکن جیسے ہی سڑک کشادہ ملتی تو یہ ہجوم منتشر ہو جاتا۔ حکام نے یہ کیاکہ سڑک پر جہاں جہاں کشادہ جگہ تھی وہاں بی آر ٹی کی حدود پر نصب جنگلہ کے نیچے پھول اور سبزہ اُگانے کو تین چار فٹ جگہ استعمال میں لا کر سڑک کی چوڑائی کم کر دی۔ اب یہاں بھی ٹریفک کا ہجوم ہونے لگا ہے۔ اپنے طور پہ ٹریفک کو ترتیب میں لانے کے لیے کیٹس آئیز بھی لگا دی ہیںجو اس بے ہنگم ٹریفک کی اصلاح کرنے کی بجائے ہر ڈرائیور کو اپنی گاڑی کے ٹائر بچانے کی فکر میں اُلجھا رہی ہیں۔ اربابِ اختیار کو چاہیے کہ ماہرین کی رائے کو اہمیت دیا کریں ۔ ان کے ارد گرد تو ‘جی سر ‘ اور ‘یس سر’ کہنے والوں کے پاس مہارت نہیں صرف خوشامد ہے۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو