مشرقیات

راستے بھی بے شمار ہیں اور رہنما بھی لیکن وہ جو ہیرے تراشتے ہیں وہ جوہری ہم کہاں لائیں،ہر شخص جانتا ہے کہ جوہر قابل ہو تو اسے تراش خراش کے ہیرا بنانے کا کام جوہری ہی کرتا ہے ،ادھر اپنے ہاں ہر بندہ خود کو ہی جوہر قابل نہیں جوہری منوانے پر بھی تلا ہوا ہے ۔اب ایسی ضدی قوم کے سامنے بین کوئی کب تک بجاتا جائے ،اس لئے جو سیانے ہوتے ہیں وہ چپ چاپ موقع دیکھتے ہی باہر نکل جاتے ہیں ۔آپ اس بات پر لاکھ فخر کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاںکے کتنے ہیرے تراش خراش کے بعد کہاںکہاں جگمگا رہے ہیں ،ان میں سرمایہ دار بھی ہیں جنہوں نے دیار مغرب ہو یا دبئی کے ریگستان ہر جگہ اپنے فن ،ہنر یا کاروباری سوجھ بوجھ کے جھنڈے گاڑے ،پڑھے لکھے پروفیشنل بھی ہیں جو طب ،انجینئرنگ ،ٹیکنالوجی اور دیگر میدانوں میں نام کما رہے ہیں ،آپ بھول گئے ہمارے ہاں کے ایک ایسے ہی پروفیشنل پر دنیا بھر کی شہزادی ڈیانا تک فریفتہ ہوگئی تھیں۔آج کی بات کریں تو ملالہ یوسفزئی دنیا کی آنکھوں کا تارابنی پھر رہی ہے،ایسے ہی لاکھوں پاکستانی ہیں جو نام کے ساتھ ساتھ دھن دولت بھی کما رہے ہیں اور ان ہی کے بھیجے گئے زرمبادلہ پر ہم جیسے ”پسماندگان” کا بھی گزارہ ہورہاہے۔لاکھوں دیار غیر جا کر تارکین وطن کہلائے اور لاکھوں نہیں کروڑوں ان کے نقش قدم تلاش کر رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ کوئی پائیدار حل ہے، باہر کی چکاچوند ترقی ہی کو معراج سمجھ کر ہم اس کی جانب دوڑ لگاتے رہیں گے یا اپنے ہاں کے گلی کوچوں کی طر ف بھی دھیان دیںگے۔بندہ خدا سب کام چھوڑکر ایک تعلیم اور بس تعلیم کا ڈھنڈورا پیٹیں،اسے مذہبی یا غیر مذہبی خانوں میں تقسیم نہ کریں۔قوم کی تعلیم و تربیت کا کوئی اتفاقی پلان ملک کی تمام سیاسی قیادت تشکیل دے اور اس گول کو حاصل کرنے کے لئے پھر منزل کی جانب سفر بھی شروع کر دیاجائے۔بلا سے ملک میں جس کی بھی حکومت ہو تعلیمی مقاصد میں روڑے اٹکانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہونی چاہئے ،جہاں دنیا نے سائنس وٹیکنالوجی کے میدانوں میں اندھا دھند کمائی کرنی شروع کر دی ہے ،وہاں ہم ہیں کہ لکیر کے فقیر بن کر کسی کنویں سے گیس یا تیل کی دریافت پر نظریں جمائے ہوئے ہیں،قدرت کی قدرتی مہربانیوںکو تعلیم یافتہ قوموں نے کیسے ٹیکنالوجی بناکر فائدہ اٹھانا شروع کیا ہوا ہے یہ دیکھنا ہوتو اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو غور سے دیکھیں یہ شاہکار آپ کو مفت تو نہیں پڑا ،ہزاروں روپے کی یہ معمولی سی ڈیوائس کروڑوں کی تعداد میں بکتی ہے اور صرف اس کی بکری سے وہ جن کو ہم صلواتیں سناتے نہیں تھکتے ،اربوں ڈالر دنیا بھر سے کما لیتے ہیں ،اس سائنس وٹیکنالوجی کی بدولت دیگر ایجادات سے اندھا دھند کمائی کا اندازہ ہما شما کے بس کی بات ہی نہیں۔سوچئے کب تک آپ بے روزگاری کو روتے رہیںگے ،کوئی ایسی تعلیم او ر ہنر کیوں نہیں سیکھا جو آپ کے ہی نہیں ہزاروں افراد کے روزگار کا باعث بنے۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟