خیبر پختونخوا میں”فیض و کرم” کی دھوم

خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ابتدائی طور پر 64 میں سے 60 تحصیلوںکے نتائج آچکے ہیں تبدیلی والے دوستوں سے آگے محب محترم مولانافضل الرحمان کی جے یو آئی ہے جس کے امیدواروں نے212 کونسلوں کی سربراہی حاصل کی۔ پی ٹی آئی 152 آزاد امیدواروں نے 10′ اے این پی نے 6 ‘ نون لیگ نے اصولی طور پر دوتحصیلوں میں کامیابی حاصل کی ہے البتہ تیسرے جس آزاد امیدوار نے ہری پور تحصیل سے نون لیگ کے امیدوار کوشکست دی ہے وہ بنیادی طور پرنون لیگ کے پرانے رکن ہیں اس لئے نون لیگ کے تین کامیاب امیدواربتائے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے دو جبکہ پیپلزپارٹی نے ایک نشست حاصل کی ہے ۔ پشاور کے میئر کا نتیجہ بظاہر جے یوآئی ے زبیر علی کے حق میں ہے لیکن ابھی چھ پولنگ اسٹیشنوںپر دوبارہ انتخابی عمل ہونا ہے اس لئے حتمی بات یا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ پیپلز پارٹی کے اس دعوے کی کہ اس کے امیدوار کو19ہزار ووٹ مسترد کرکے جے یوآئی کو راستہ دیاگیا کی آزاد صحافتی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تصدیق نہیں کی جارہی ویسے یہ دعویٰ سوشل میڈیا پر دوڑایا جارہا ہے ۔ پی پی پی خیبرپختونخوا کے ذمہ داران بھی تصدیق نہیں کر رہے ۔اتوار اور سوموار کی درمیانی شب جیالوں نے ارباب ہائوس سے مبینہ طور پر فراہم کردہ نتائج کی بنیاد پر میئرپشاور کی نشست پراپنے امیدوار کی کامیابی کا سماں باندھے رکھا ۔ پی ٹی آئی کے ہاتھ سے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ کیسے نکل گیا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو مولانا فضل الرحمان نے دیا ان کا کہنا ہے کہ ”ثابت ہو گیا کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی”۔ 17اضلاع کے ابتدائی بلدیاتی نتائج میں جے یو آئی کو بڑی اور کامیاب جماعت کے طور پرسامنے آئی کیا یہ کسی کا”فیض”وکرم ہے ۔ پڑوس کی مذہبی حکومت کا اثر یا کچھ اور اس ایک جمع تین سوال کے جواب بھی دوڑ بھاگ رہے ہیں۔ ہمارے محبوب شاعر احمد فراز مرحوم کے صاحبزادے سینیٹر اور وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کہتے ہیں”پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا”۔ ان کی بات درست نہیں ہے جی کے بہلانے کو غالب ہریہ خیال اچھاہے البتہ ہمارے دوست شوکت یوسفزئی جو کے پی کے صوبائی وزیر ہیں نے اعتراف کیا کہ شکست کی بڑی وجہ مہنگائی ہے ۔ فقیر راحموں بولے شاہ جی دنیا کے سستے ترین ملک میں مہنگائی کے مارے رائے دہندگان نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے سمجھنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔ ایک ظلم یہ ہوا کہ ہمارے وفاقی وزیر علی محمد خان کے ضلع مردان میں دو حلقوں میں اے این پی اور تین میں جے یوآئی جیت گئی ۔ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل میئر کا انتخاب اے این پی کے امیدوار کی سفاکانہ قتل کی وجہ سے ملتوی ہوا مقتول کے صاحبزادے نے قتل کا الزام براہ راست علی امین گنڈاپور اور ان کے بھائی پر لگاتے ہوئے انکشاف کیا کہ قتل سے دو دن قبل ان کے والد کو الیکشن سے دستبردار ہونے کے لئے دو کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ بہر طور یہ 64میں سے 60 حلقوں کے نتائج ہیں چند وفاقی اور صوبائی وزراء کے اضلاع سے ان کی جماعت مکمل طور پر ہار گئی یہاں تک کہ وفاقی وزیرعلی امین گنڈا پور کی آبائی یونین کونسل سے پیپلز پارٹی جیت گئی۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کے ابتدائی نتائج سب کے لئے حیران کن ہیں جے یو آئی کی اس انداز میں واپسی کوکسی کے ”فیض وکرم” کا نتیجہ بھی قرار دیا جارہا ہے یہ دعویٰ بھی ہے کہ مارچ 2021ء میں جو وعدہ پورا کیاجانا تھا اب مارچ 2022ء میں پورا کر دیا جائے گا۔ خیران دعوئوں پر بحث اٹھانے میں ایک سے زائد ”امر مانع ہیں” سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دوست دعویٰ یہ کر رہے تھے کہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہو گئی ہے اس لئے پی پی پی کو لاہور کے ضمنی الیکشن میں 32ہزار اور خانیوال کے ضمنی الیکشن میں 15ہزار ووٹ ملے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسی ڈیل ہے جو ہوئی آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے ساتھ تھی مگر خیبر پختونخوا میں ابتدائی مرحلہ میں بڑی جماعت جمعیت علماء اسلام ہے ۔ ہاںالبتہ اگر پیپلز پارٹی اس سے نصف تعداد میں بھی کامیابی حاصل کرلیتی تو پھر ڈیل والی پھکی کی ریکارڈ توڑ فروخت ہوتی مولوی چونکہ اس معاشرے کی خدا کے بعد طاقتور ترین قوت ہیں اس لئے کوئی بھی اب ایمان کو خطرے میں ڈالنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اب آیئے اس پر بات کرتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ سے قبل کچھ حلقے اے این پی اور پیپلزپارٹی کو انتخابی اتحاد بنانے کا مشورہ دے رہے تھے جو دونوں جماعتوں کے مقامی طور پر ”زورآور” لوگوں نے نہیں مانا اس لئے بات آگے نہ بڑھ پائی البتہ اب اگر ابتدائی مرحلہ کے 17 اضلاع کے مجموعی نتائج کو سامنے رکھا جائے تو انتخابی اتحاد کا مشورہ درست معلوم ہوتا ہے پشاور سمیت جتنے بھی حلقوں کے ابتدائی نتائج میں اے این پی اور پیپلز پارٹی نے جیتنے والے امیدوار کے مقابلہ میں ووٹ لئے ہیں یہ ووٹ اگرانتخابی اتحاد کی صورت اختیار کرتے تو نتیجہ یقینا مختلف ہوتا۔ درون سینہ رازوں سے آگاہ دوست یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایک وقت میں مشترکہ طور پر الیکشن لڑنے کی بات چلی تھی لیکن پشاور اور ڈی آئی خان کے تحصیل میئروں کے لئے دونوں اپنے اپنے امیدواروں سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ کیوں نہیں ہوئے اس کا ایک خاص پس منظر ہے خصوصاً پشاور کی حد تک ‘ ہمارے دوست حسن رانا کائنات کی سب سے جمہوری پارٹی کی شکست پر خوش اور فقیر راحموں جماعت اسلامی کو صرف دو تحصیل سربراہ ملنے پر دونوں کے ذاتی مسئلہ ہیں رانا جی سول سپرمیسی کے حامی ہیں اور فقیر راحموں عالمگیر انقلاب اسلامی کے ناقد خیر ان دونوں کی باتیں چھوڑیں آپ بس جناب شبلی فراز اور فواد حسین چوہدری کی وضاحتوں کے مزے لیجئے دونوں ایسی ایسی تاویلات پیش کر رہے ہیں جن کی تشریح و تفسیر یہ خود بھی نہیں کرپائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟