بڑے خوابوں اور بُری حقیقتوں کی دنیا

عمران خان کو کوئی سلیکٹڈ کہے یا الیکٹیڈ مانے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک زندہ حقیقت بن چکے ہیں ۔وہ پاکستان کو اپنی سوچ وفکر کے مطابق اور اس سوچ کے مطابق جس کے تحت نوے کی دہائی کے اوائل میں انہیں دو جماعتی نظام کے متبادل کے طور پر دوطاقتور پہلوانوں کے درمیان اکھاڑے میں اُتار اگیا تھا پاکستان کو ڈھال سکتے ہیں یا نہیں مگر ان کا اختیار کردہ راستہ اب پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے ۔وہ پاکستان کے حکمرانوں کی جونیجو ،جمالی ،شجاعت ،معین قریشی ،یوسف رضاگیلانی فہرست کا حصہ نہیں رہے بلکہ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کی فہرست میں چلے گئے ہیں ۔وہ جہاں سینگ پھنسائے بیٹھے ہیں وہاں بہت سوں کے سینگ ہی اُڑ جانے کی روایت رہی ہے ۔ان کے پا س ایک بڑی اورمقبول جماعت اور اپنے والد کی دلیرانہ قربانی کا عظیم ورثہ تھا ۔سیاسی خوشہ چین ایسے کہ ان کی ایک بات پر جان پر کھیل جائیں ۔ان کا احساس برتری اور اعتماد چنداں غلط نہیں تھا ۔جب ان کے مقابل میاں نوازشریف کو پنجاب میں اُبھارا جانے لگا تو بے نظیر بھٹونے انہیںایک متبادل قوت تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا ۔وہ سیاست کی بدلی ہوئی حرکیات کو سمجھنے سے قاصر رہیں ۔نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ومنشا ء سے سیاست میں آئے تھے مگر وہ پنجاب کے عام آدمی کے دلوں کے تار چھیڑنے میں کامیاب ہو رہے تھے مگر پیپلزپارٹی اس حقیقت سے نظریں چرا کر نوازشریف کی ہر فتح کو ایجنسیوں کا کارنامہ ان کی پر پیش قدمی کو ضیا ء الحق سوچ کا شاخسانہ سمجھتی رہیں ۔ان کی حکومتوں کو کٹھ پتلی اور دھاندلی کی پیداوار سمجھ کر صرف انہی انتخابات کو تسلیم کرتی رہیں جن میں ان کی جماعت ظفر مند ٹھہرتی تھی ۔پیپلزپارٹی کو اس کا احسا س اس وقت ہوا جب نوازشریف زمینی حقیقت بن کر سامنے آئے اور پھر ایک روز دیار فرنگ میں پارٹی کو ان سے برابری کی سطح پر میثاق جمہوریت کرنا پڑا ۔ایک حقیقت سے انکار کرتے ہوئے وہ اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں عمران خان اب ایک بڑی زمینی حقیقت بن چکے ہیں۔عمران خان کے اسلام آباد جلسے پر امریکہ کے معروف سیاسی تجزیہ نگارمائیکل کوگلمین کا یہ ٹوئٹ بہت معنی خیز تھا ”میرے خیال میں عمران خان نے اس جلسے سے اپنا مقصد حاصل کر لیاہے آج کی ریلی تحریک عدم اعتماد سے تھوڑا پہلے عام انتخابات کے حوالے سے وہ جب بھی ہوئے طاقت اور عوامی حمایت دکھانے کا ایک انداز تھا۔ ان کی تقریر کمپین پچ پر تھی اور یہ ان کے حلقہ ٔ اثر میں گونجتی رہے گی ”۔تحریک عدم اعتماد سے اتوار کو وزیر اعظم عمران خان نے اس وقت دنیا کو سرپرائز دیا جب ان کے خلاف قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک اعتماد پر رائے شماری ہونا تھی ۔ سب سے پہلا سرپرائز تو یہ تھا کہ حکومتی بنچوں نے اچانک تحریک اعتماد کے موقع پر ایوان میں جانے کا کا فیصلہ کیا ۔پہلے یہی سمجھا جا رہا تھا کہ عدم اعتماد کے موقع پر حکومتی اراکین ایوان سے غیر حاضر رہیں گے اور مطلوبہ ارکان پورے کرنا اپوزیشن کی ہی ذمہ داری ہو گی ۔اچانک حکومت نے یہ پالیسی تبدیل کرتے ہوئے ایوان میں جانے کا فیصلہ کیا ۔اسی فیصلے سے حکومت کی اگلی حکمت عملی کا جنم ہوا ۔یہ حکمت عملی اتوار کو آشکار ہوگئی ۔ایوان میں وزیر قانون فواد چوہدری نے ایک طویل تقریر کرکے تحریک اعتماد کو بیرونی سازش قرار دیا ۔ان کی تقریر کے اختتام پر ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے غیر ملکی مداخلت کے نکتے کو تسلیم کرکے تحریک اعتماد کو مسترد کردیا ۔جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹیلی ویژن پیغام میںصدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھیجنے کا اعلان کیا جس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا ۔ان کے درمیان کوئی نکتہ اشتراک اول تو قائم ہی نہیں ہو سکا اور اب تو سرے سے ہی اس کا امکان نہیں۔عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دے کر سماعت کا آغاز کیا ہے ۔اب ایک خالص تنازعہ عدالتی کارروائی میں ڈھل گیا ہے۔سپریم کورٹ اب اس معاملے کو ہر پہلو سے جانچنے کی کوشش کر ے گی ۔عین ممکن ہے اس سارے قضیے کی اصل بنیاد یعنی امریکہ سے آنے والے دھمکی آمیز خط کی حقیقت اور امریکی سفارت کاروں کی تین درجن ملاقاتوںکی حقیقت جاننے کے لئے ایک کمیشن قائم کرے ۔کمیشن قائم نہ بھی ہو اس عدالت ”’رجیم چینج ” کی کوشش کی بنیاد بننے والے خط کا جائزہ بھی لے گی ۔یہ خط محض افسانہ بھی نہیں رہا کیونکہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اس خط کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر امریکہ سے احتجاج کا مشورہ دے چکی ہے اور امریکہ کے ڈپٹی ناظم الامور کو دفتر خارجہ بلا کر احتجاج بھی کیا جا چکا ہے جبکہ دھمکی دینے والے امریکی اہلکار ڈونلڈ لو ایسی کسی دھمکی کی تردید سے گریز کر چکے ہیں ۔اس لحاظ سے معاملہ اتنا سادہ نہیں رہا ۔جو بھی ہو اب یہ تنازعہ سپریم کورٹ کے حوالے ہے ۔دیکھتے ہیں سپریم کورٹ اس خالص سیاسی معاملے کا کونسا عدالتی حل نکالتی ہے ۔شاید اب اس معاملے میں نئے انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

مزید پڑھیں:  پانی کے ضیاع پر افسوسناک خاموشی