دخل در معقولات

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری صورتحال کو مانیٹر کر رہے ہیں بین الاقوامی میڈیا کے مطابق نیڈ پرائس نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے پر امریکہ کی طرف سے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے کہ سیاسی جماعتیں گڈ گورننس اور جمہوری اقدار پر قائم رہیں گی امریکہ توقع کرتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں آئین کی پاسداری کریں امریکہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ۔پاکستان میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاری سے لے کر پیش کرنے اور اس پر بحث کے دوران ہی نہیں بلکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بھی مبینہ غیر ملکی سازش کا باب بند ہونا مشکل نظر آتا ہے امریکہ جمہوریت کا پرچار تو کرتا ہے اور پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا بیان بھی ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے دہرایا بھی ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان میں نئے سیاسی حکومت کے حوالے سے رائے دینے اور توقعات کے اظہار سے گریز بھی نہیں کیا گیا ہے امریکہ کے ترجمانوں کا یہی رویہ اور ان کے بیانات اگردخل درمعقولات کے زمرے میں نہیں بھی آتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کسی دوسرے ملک کو اس امر کی اجازت دے گا کہ وہ امریکہ کے صدر کے انتخاب کے بعد اس توقع کا اظہار کرے کہ امریکہ کے نومنتخب صدر امریکہ میں قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنائیں گے اور عدم مداخلت کی روایت کو نہیں دہرائیں گے اب جبکہ پاکستان میں ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں تبدیلی کے بعد نئی حکومت قائم ہونے جارہی ہے بہتر ہوگا کہ پاکستان کے داخلی معاملات کے حوالے سے امریکہ اور روس سمیت کوئی بھی ملک کوئی ایسا بیان جاری نہ کرے جس سے کوئی دوسرے معنی لئے جا سکیں۔
پردیسیوں کی واپسی
پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت ختم ہونے کے بعد خیبر پختونخوا سے ڈیپوٹیشن پر جانے والے افسروں کے ساتھ ساتھ پنجاب اور اسلام آباد میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات بیورو کریسی کے افسران کی بھی آئندہ چند روز میں واپسی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ملک میں سیاسی حکومتوں کی آمد پر بیورو کریسی میں بھی تبدیلی کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں لیکن بدقسمتی سے بیورو کریسی میں تبدیلی انتظامی ضرورت کی بجائے سیاسی ضرورتوں کے تحت کرنے کا رواج چلا آرہا ہے سرکاری افسران بھی غیراعلانیہ طور پر کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہوتی ہے یا کم از کم کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ان کی نہ صرف ہمدردی ہوتی ہے بلکہ اکثر افسران سیاسی جماعتوںکی قیادت میں تعلقات استوار کئے ہوتے ہیں جس کا مقصدباری آنے پر من پسند عہدے لینا ہوتا ہے اس حد تک بھی بات ہوتی تو اس کی گنجائش طوعاً وکرھاً بھی جائز ٹھہرائی جا سکتی تھی مگر بدقسمتی سے سیاسی حکومتوں میں اعلیٰ عہدے لینے والے افسران سرکاری افسران کی بجائے سیاسی جماعتوں کے خادم کا کردار نبھانے لگتے ہیں اور عوامی مفاد پر سیاسی مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے یہ نہ صرف بیورو کریسی کی کارکردگی کے لئے مضر امر ہے بلکہ قانون کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ میرٹ پر سرکاری افسران کی تعیناتیاں ہوں اور حکومت کی تبدیلی کے بعد صرف ناگزیر عہدوں ہی پر افسران کی تبدیلیاں کی جائیں۔
آبنوشی کا حل طلب مسئلہ
شہر میں ٹیوب ویل شیڈول کے مطابق نہ چلانے ٹیوب ویلوں کی خرابی کے باعث شہریوں کوآبنوشی کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہونے کی شکایات معمول بن چکی ہیں۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں یونین کونسل سولہ ا ندر شہر ڈھکی میں تین دن سے ٹیوب ویل بند ہونے سے شہریوں کو جومشکلات درپیش ہو سکتی ہیں اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے یقین نہیں آتا کہ ٹیوب ویل تین دنوں سے بند ہے اور حکام کوئی نوٹس نہیں لے رہے ہیں ممکن ہے صورتحال ایسی نہ ہو بلکہ اس کی کوئی اور وجہ ہو بہرحال جو بھی ہو ٹیوب ویل کی خرابی درست کرنے اور مقررہ اوقات کار میں ٹیوب ویل چلا کر پانی کی فراہمی یقینی بنانے پر بلا تاخیر توجہ دی جائے تاکہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوںعوام کو پانی کے حصول کے لئے در بدر نہ ہونا پڑے ۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے