تحریک انصاف کا امتحان

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وزرات عظمیٰ کے عہدے سے محروم ہونے کے بعد تحریک ا نصاف کے قائد عمران خان کی جانب سے سوشل میڈیاپر جاری بیان میں جدوجہدشروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت تمام بڑے شہروں میں سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کئے ہیں ۔ امریکہ ‘ برطانیہ ‘ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں بھی ہزاروں افراد نے عمران خان سے یکجہتی کے لئے ریلیوں میں شرکت کی ہے تحریک انصاف کے چیئرمین نے عوامی رابطہ مہم پشاور سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان کا پہلا جلسہ پشاور میں بدھ کی رات بعد نماز عشاء ہونے کا بتایا گیا ہے ایک تجویز میں عید الفطر کے بعد عوامی مہم شروع کرنے اور جبکہ ایک اور تجویز کے مطابق فوری طور پر عوام میں جانے پر غور کیا گیابہرحال یہ طے ہے کہ سیماب صفت عمران خان آمدہ دنوں میں سڑکوں پر ہوں گے جبکہ ان کے پرجوش کارکن پہلے ہی اس کے لئے تیار ہیں اور ان کو مزیدکسی تیار ی کی ضرورت نہیں ۔ تحریک عدم اعتماد کے غلغلے کے دوران بڑے بڑے عوامی اجتماع کرکے ایک طرح سے تحریک انصاف کے قائد پہلے ہی عوامی احتجاج کا آغاز کر چکے ہیں ۔تحریک انصاف کے 2018ء کے انتخابات سے قبل جلسوں کے انتظامات کے ساتھ ساتھ جو دیگر موافق عوامل اور سہولیات موجود تھیںساتھ ہی ساتھ تحریک انصاف کا طوطی بول رہا تھاایسے میں بڑے بڑے جلسوں کاجو انعقاد ہوا ایسے میں اصولی طور پرتحریک انصاف کے اجتماعات میں کامیاب جلسوں کا ریکارڈ ٹوٹ جائے تبھی ان کے جلسوں کو کامیاب قرار دیا جا سکے گا۔ موجودہ حالات میں ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور اب حالات بھی اس طرح موافق نہیں رہے اور نہ ہی وہ سہولتیں دستیاب ہو سکتی ہیں ایسے بہت سے عوامل جو پہلے مثبت ٹھہرتے تھے اب وہ منفی ہوچکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے بعض اہم رہنما جن کا تحریک انصاف کے جلسوں کی کامیابی میں ماضی میں بڑا کردار رہا ہے وہ اب تحریک انصاف کی کشتی کے مسافر نہیں اس تمام ناموافق صورتحال اور ہواکے مخالف رخ پر پرواز اور منجدھار کے مقابل تیراکی کرتے ہوئے کپتان اپنی سیاسی زندگی کا وہ پہلا بڑا امتحان دینے جارہے ہیں جو ان کی مقبولیت کے حوالے سے نہ سہی لیکن جلسوں کے حوالے سے ان کے لئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہ ہو گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے قائد اور ان کے مشیر وں کا خیبر پختونخوا سے تحریک کا آغاز کرنے کا فیصلہ زیادہ مناسب اس لئے نہیں کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں ابھی کمی نہیں آئی جبکہ سب سے بڑا عامل صوبے میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت اور انتظامیہ ہے جو باد مخالف کو بھی باد صبا میں تبدیل کرسکتی ہے ایسے میں چیلنج قبول کرنا اور آگے بڑھ کر چیلنج دینے کا تقاضا تھا کہ تحریک انصاف نے جس طرح مینار
پاکستان پر تاریخی جلسہ کرکے سیاسی کامیابی کی سیڑھی چڑھنے کا آغاز کیا تھا اس سیڑھی سے اترنے کے بعد اسی مقام پر کامیاب جلسہ کرکے ثابت کرتی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت برقرار ہے اور اقتدار سے محرومی و آندھیوں اور طوفان کے بگولوں کا وہ عوامی طاقت سے اب بھی مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے ۔خیبر پختونخوا کے جلسے کو اگر وارم اپ اور تیاری کے طور پر لیا جائے اور اس جلسے میں مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا جائے تو یہ سیاسی مخالفین کے لئے یقینا کھلا چیلنج اور کپتان کے پراعتماد ہونے کا ثبوت ہو گا لیکن اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے ۔تحریک انصاف کی سیاسی قوت اور مقبولیت کا جائزہ لیا جائے تو ہنوز اگر اس میں ا ضافہ نہیں ہوا تو زیادہ کمی بھی واقع نہیں ہوئی ہو گی لیکن تحریک ا نصاف کی اصل کمزوری کارکنوں کو ایک نظم کے ساتھ متحرک رکھنا اور ان کو ایک ہجوم کی بجائے منظم سیاسی قوت میں تبدیل کرنے اور ایک لڑی میں پرونے کا ہے جس میں نہ صرف وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو اقتدار کے ماہ و سال تحریک انصاف کے کارکنوں کی سیاسی تربیت اور پراثر انداز میں عوامی حمایت کے حصول اور اپنی مقبولیت اور طاقت کے جماعتی مفاد میں منظم طریقے سے استعمال کرنے کی بجائے مزید انفرادیت پن کا شکار ہے خیبر پختونخوا میں اگرچہ حالیہ دنوں میں کامیاب جلسوں نے تحریک انصاف کے 2018ء کے عام انتخابات کے جلسوں کی یاد تازہ کر دی ہے لیکن درمیانی مدت کے بعض جلسوں میں کارکنوں کی تعداد کا مسئلہ بھی سامنے آنے کی مثالیں موجود ہیںبلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کو سترہ اضلاع میں متوقع کامیابی کا حاصل نہ ہونا بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں بہرحال ان تمام عوامل کے باوجود تحریک انصاف نے سڑکوں پر آکر حزب اختلاف کے جس کردار کا پہلی مرتبہ مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کا تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو زیادہ تجربہ نہیں ۔خیبر پختونخواسے قطع نظر تحریک انصاف اگر صوبہ پنجاب میں جلسوں کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ حقیقی معنوں میں چیلنج دینا اور چیلنج قبول کرنے کے مترادف ہوگا جہاں قیادت سے لے کے کارکنوںکوناموافق حالات میںاور انتظامیہ کے ہتھکنڈوں کا نہ صرف سامنا کرنا ہوگا بلکہ ان کا ثابت قدمی کے ساتھ مظاہرہ بھی کرنا ہوگا بدلتے حالات اور نئی حکومت کے بعض ممکنہ فیصلے اور اقدامات کب سامنے آتے ہیںاس سے قبل کہ نئی حکومت کوئی فیصلہ کرے اور مختلف قسم کے ممکنہ قانونی اقدامات کا آغاز کرے اس کے تناظرمیں کپتان کے پاس وقت محدود ہے یہ وقت صرف تحریک انصاف کے چیئرمین کے لئے ہی صبر آزما اور سیاسی بصیرت کے مظاہرے کا نہیں بلکہ کسی بھی قسم کے حالات میں تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کا درجہ بدرجہ امتحان ہو گا جس میں کامیابی کے بعد ہی تحریک انصاف ایک منظم جماعت کہلائے گی۔اس وقت تحریک انصاف کی قیادت کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے کی جتنی ضرورت ہے ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔نیز اپنے کارکنوں کو منظم انداز میں متحرک کرکے حالات کا مقابلہ کرنا بھی بڑے چیلنج سے کم نہیں ۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے