سیاسی تبدیلی اور جمہوری عوامل

پوری قوم پورا دن اور نصف رات تک ٹی وی سیٹس کے اسیر رہے ۔ابھی سحری میں ایک گھنٹہ باقی ہے ۔اب کیا سونا کہ پھر جاگنا ہے ۔ مگر ایک اطمینان بہرحال ضرور ہے کہ ایک شدید بحران جو ملک کو لاحق تھا اس بابرکت مہینے کے فیض سے ٹل گیا اور ایک آئینی عمل مکمل ہوگیا ۔ متحدہ اپوزیشن کے قومی اسمبلی میںتحریک عدم اعتماد جیت جانے پر عمران خان ملک کے وزیر اعظم نہیں رہے ۔ شہباز شریف ملک کے نئے وزیر اعظم بن گئے۔ یہ کھیل سیاست کا ہے اور اس کھیل میں جیت اور ہار کے معجزوں سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کیونکہ سیاسی پارٹیاں سیاست کرتی ہی اسی لیے ہیں کہ وہ خود کو حکمرانی کا حقدار سمجھتی ہیں اور موقع کی نزاکتوں کو استعمال کرکے اقتدار تک پہنچنا سیاست کاوطیرہ رہاہے ۔ اس آئینی تبدیلی کے نتیجے میں کوئی بہت خوش ہوگا تو کوئی بہت دل گیر اور کوئی ہماری طرح یہ دعا کرتا ہوگا کہ عوام کی حالت اچھی ہوجائے ۔ زندگی کی کٹھنائیاں کم سے کم تر ہوجائیں۔ نئے پرانے پاکستان کی بحث میں جیسے خدانخواستہ دو پاکستان بن گئے تھے ۔ جھوٹ ، عدم برداشت ، بہتان طرازی ، غصہ اور اس جیسے بہت سے منفی پہلو کسی لاعلاج زخم سے رستے پیپ کی مانند سوشل میڈیا پر جیسے پھوٹ رہے تھے ۔شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کارکردگی کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتے ہیں ۔دیکھئے کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے کیسے پرفارم کرتے ہیں ۔ امید تو اچھی ہی رکھنی چاہیئے کہ متحدہ اپوزیشن میں ملک کی تمام پارٹیاں عدم اعتماد میں ایک ساتھ ہوگئی ہیں ۔ اس سارے کھیل میںفی الوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کون جیتا او رکون ہارا ۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے اس عدم اعتماد کے بعد اگلا الیکشن سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔ عمران خان اور اس کی پارٹی کے پاس اب بھی ایک ایسا کارڈموجود ہے کہ جسے لے کر وہ عوام کے پاس جاسکتے ہیں اور وہ کارڈ یہی عدم اعتماد اور اس تحریک کے پیچھے کارفرما پی ٹی آئی کا خط والا بیانیہ۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ خود عمران خان اپوزیشن میں بہت اچھا پرفاررم کرتے ہیں ۔ ان کے جلسے کسی فیسٹیول کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اور یہی متحدہ اپوزیشن کے لیے آئندہ دنوں میں سب سے بڑا چیلنج ہوگا ۔ جبکہ متحدہ اپوزیشن جو تحریک عدم اعتما د میں سوفیصدی ایک جُٹ دکھائی دی لیکن یہ اتحاد و اتفاق یقینی طور پر اس وقت ضرور ٹوٹے گا جب اگلا الیکشن شروع ہوجائے گا ۔ کیونکہ اس اتحاد میں دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اگلی حکومت کے دعویدار ہوں گی اور وہ کسی بھی صورت مل کر الیکشن لڑ نہیں سکتیں ۔ البتہ چھوٹی پارٹیوں کا الائنس ہوسکتے ہیں۔ اب ایسی صورت میں دیکھنا ہوگا کہ یہ اتحاد کتنے روز چلتا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان کی اس بات کو اپوزیشن اتحاد کی سب پارٹیوں نے ذہنی طور پر قبول کیا تو ہے کہ ”بہار آئے نہ آئے خزان چلی جائے ” تو بقول ان کے” خزان ”تو چلی گئی لیکن اگلا الیکشن کس پارٹی کے لیے بہار کا سبب بنے گا فی الوقت یہ نہیں کہا جاسکتا ۔ کیونکہ اس بہار کے جانے کا بظاہر فائدہ مسلم لیگ نون کو ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ مرکز میں شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے اور سب سے بڑے صوبے کے ممکنہ وزیر اعلی انہی کے بیٹے حمزہ شہباز ہوگئے تو یہ دونوں باپ بیٹا اگر پرفارم کرگئے تو آئندہ الیکشن میں انھیں کامیابی سے کیسے روکا جائے گا ۔ وہ بھی مسلم لیگ نون کو کھلامیدان نہیں چھوڑسکتے ۔ رہی بات مولانا فضل الرحمان کی تو وہ بلدیاتی الیکشن میں ہی اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں ۔ اورجماعت اسلامی کی ”خاموش سیاست ” کا فائدہ اٹھا کر آئندہ الیکشن میں مذہی ووٹ حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ مولانا ہی تھے کہ جنھوں نے پی ٹی آئی حکومت کو روز اول سے ٹف ٹائم دینا شروع کردیا تھا ۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ مولانا صاحب کے بغیر یہ تحریک اتنی توانا نہ ہوتی ۔ وہ جیسے تیسے پی ڈی ایم کی گاڑی کوکھینچ کر عدم اعتماد تک لے کر آئے ۔ اس وقت بھی جب عمران خان کی حکومت اپنے عروج پر تھی مولانا نے ہار نہ مانی اور گراؤنڈ لیول پر حکومت کو چیلنج کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کا ملکی سیاست پر گہرا اثررہا ہے ۔ اس سارے منظر نامے میں جو بات پیش گوئی کے طور پر کی جاسکتی ہے تو تما م سیاسی پارٹیاں بشمول پی ٹی آئی نئے انتخابات کی طرف جلد جانا چاہیں گی اس کی وجہ ہر پارٹی کے لیے مختلف ہوسکتی ہے ۔ پی ٹی آئی مظلومیت کا ووٹ اس لیے جلد لینا چاہے گی کہ کہیں میاں شہباز شریف پرفارم کرگئے اور 2023میں الیکشن تک پہنچتے پہنچتے ان کی مظلومیت کی فضا کم نہ ہوجائے ۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی سوچ بھی ایسی ہی ہوسکتی ہے ۔کہ سندھ تو ان کا اپنا ہے ۔ لیکن پنجاب میں حمزہ شہباز کی صوبائی اور میاں شہباز کی وزارت عظمیٰ مل کر پنجاب میں بڑا ووٹ لے گئی تو مرکز تو گیا ۔جبکہ مسلم لیگ نون بھی جلد ہی الیکشن کی خوگر ہوگی کہ شہباز شریف اگر پرفارم کربھی لیں تو سیاسی پارٹیاں یہی کہیں گی کہ یہ تو اتحادی حکومت تھی کسی ایک پارٹی کی کامیابی نہیں ہے ۔ بہرحال قوم ایک نئے سیاسی سفر پر گامزن ہوچکی ہے دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مگر یہ بات طے ہے کہ انہی سیاسی پارٹیوں نے ملک کو چلا نا ہے اور فی الوقت ملک غلطیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ سیاسی پارٹیاں بھی اپنی غلطیوں سے سیکھ لیں تو ان کے لیے اور قوم دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے