مشرقیات

سیاست کی گرم بازاری جاری ہے اور امکان غالب ہے کہ اب جاری ہی رہے گی ایک طرف تمام کی تمام سیاسی جماعتیں ہوں گی اور دوسری طرف عمران خان کی تحریک انصاف ،درمیان کوئی لبیک کا نعرہ مستانہ لگا کر کود پڑا توسمجھ لیں
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اس کی زلفوں کے اسیر ہوئے
یہ امکان اس لیے ظاہر کیا جارہا ہے کہ سڑکوں پر نکلنے والوں کا مقابلہ ہمیشہ سڑ کوں پر کرنے کے لیے ہمارے ہاں سرکار اور اس کے سرپرستوں کو کرائے پر جتھے دستیاب ہوتے ہیں یوں سمجھیں ہماری ساری تاریخ ہی کرائے کے جتھوں کی فراہمی پر مشتمل ہے کہنے والوں کے بقول ہمارے ہاں کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی جماعتوں سے لے کر دینی ولسانی تنظیموں اپنے سرپرستوں کے کہنے پر ایسی گراں قدر خدمات سرانجام دیں ہیں کہ جس کا صلہ انہیں اقتدار میں شراکت کی صورت میں ملتا رہاہے آپ کو یاد ہی ہوگا کراچی ایک کال پر بند کرنے کا کھیل کھیلنے والے کس کے کہنے پر حرکت میں آتے تھے، ایک بار تو صاف کہہ دیاگیا تھا کہ کراچی میں ردعمل کے باعث جو ہوا سو ہوا اور اچھا ہوا۔۔مطلب یہ کہ لوہے کو لوہے سے کاٹنے کا فلسفہ ہمارے ہاں رائج ہے اور یار لوگ اس سے ابھی دست بردار ہونے کا نام نہیں لے رہے ،ایک بار سرکار نے کہا تھا کہ ان کی بڑی خواہش ہے کہ پاکستان نارمل ملک بن جائے ،مطلب یہ کہ نارمل لوگوں کا ملک بن جائے اس سے اچھی خواہش کس کی ہو سکتی ہے، تاہم مسئلہ اس میں یہ ہے کہ خواہش مند حلقے خود ہی نارمل بننے پر جب آمادہ نہ ہوں تو ملک کی بات کیوں کرتے ہیں، جناب عالی خود کو نارمل کر لیں، ہم بھی آپ کو ماڈل بنا کر خود بخود نارمل ہوتے جائیں گے بصورت دیگر بھی ماڈل تو آپ ہی ہیں ،ہمارا ردعمل اپنے ماڈل کے عمل سے ہی پھوٹا ہے۔اگر ہم گالیاں دیتے ہیں تو آں جناب جانتے ہیں کہ ان کی سرپرستی میں دھرنوں وغیرہ کے موقعوں پر ہما شماکو باقاعدہ گالیاں سکھانے کے لیے کلاسیں لگتی رہی ہیں ،ان کلاسوں کے ٹیوٹر کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور ان کا مقصد جو بھی تھا کم ازکم وطن عزیز کو نارمل ملک بنانا تو ہرگز نہیں تھا۔اب دیکھنا ہے کہ نئے منظر نامے میں سرکار کیا رنگ بھرتی ہے، آپ مانیں یا نہ مانیں سرکار اپنے کام سے کام رکھتے اور قانون بھی اپنی راہ بلاکسی امتیاز کے خود بنائے تو کسی کو مجال نہیں ہوگی، اس ملک اور اس کے لوگوں کو ابنارمل بنانے کی ،یہ تو ہم خود ہی ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہے ہیں اور پھر اس میں مردہ لٹانے کے لیے خودکشی کی راہ پربھی چل پڑتے ہیں۔ایسے میں بیرونی دشمن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں رہتی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے کام جب ہم خود ہی انجام دے سکتے ہیں تو سرحد پار کے کسی دشمن کو کاہے کی فکر؟

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے