مہنگائی اور معاشی بحالی بڑا چیلنج

وزیر ا علیٰ پنجاب کی حیثیت سے اچھی حکمرانی اور کامیاب منتظم کی حیثیت سے شہرت پانے والے شہباز شریف نے پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد جن اقدامات کا اعلان کیا ہے اور ان کو جن معاشی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے ایسے میں وزارت عظمیٰ کی کرسی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ بہت زیادہ چیلنج کا حامل اقتدار کی کرسی ہے جہاں ایک جانب یہ مسائل ہیں وہاں بھان متی کا کنبہ چلانا بھی کوئی آسان کام نہیںوزیر اعظم منتخب ہونے سے قبل ہی اقتدار سے محروم ہونی والی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے چنائو کے بائیکاٹ اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے اجتماعی استعفوں کے اعلان سے طبل جنگ بجا دی گئی ہے یہ درست ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف مضبوط اعصاب کے مالک اور متین مزاج شخصیت کے حامل ہیں لیکن ان کا پالا ان صفات کے برعکس عناصر سے پڑا ہے بہرحال ہر نئی آنے والی حکومت اور وزیر اعظم کو چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے جن کا برد باری سے مقابلہ اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت پر ان کی حکومت کی پالیسیوں کا انحصار ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا مدت اقتدار اتنا طویل نہیں کہ وہ طویل المعیاد پالیسیاں تشکیل دے کر ان پر عمل درآمد کرکے دکھا سکیں انہیں ہر قیمت پر مقررہ مدت کے اندر کچھ کرکے دکھانا ہے اگر دیکھا جائے تو اس حوالے سے شہباز شریف کی تیاریاں پوری تھیں جس کا ثبوت ان کے پہلے ہی تقریر میں اعلان کردہ اعلانات سے ہوتا ہے سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی مدت ا قتدار کے ابتدائی 90دنوں کے اندر مسائل کا حل اور عوام کو تبدیلی کا خواب پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگررخصتی تک ان کے بہت سے کام اور خواہشات ادھورے رہ گئے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے فوری اعلانات اور ان پر فوری عمل درآمد سے آغاز کرکے اچھی ابتداء کی ہے ۔سیاسی اور دیگر معاملات سے قطع نظر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پر سب سے بڑا اعتراض ایک ہی تھا اور اس اعتراض کی نوعیت ایسی تھی کہ صرف مخالفین ہی نہیں خود ان کے حامی اور کارکن بھی اس کا انکار نہیں کرتے تھے وہ سب سے بڑا اعتراض مہنگائی اور معاشی بدنظمی اور اس اہم نوعیت کے شعبے میں ناکامی کا تھامدت ا قتدار کے اختتام کے باوجود بھی اس ناکامی کے اثرات سے تحریک انصاف دامن نہیں چھڑا سکے گی جس سے قطع نظر نئی حکومت کا بیڑہ اٹھانے والوں کے لئے بھی مہنگائی اور معاشی میدان میں کچھ نہ کچھ کر دکھانا ہی سب سے بڑا چیلنج نظر آتا ہے ۔ تمام معاملات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو اس وقت معاشی چیلنج ہی سرفہرست نظر آئے گاعوام بھی بالاتفاق مہنگائی میں کمی اور معیشت میں زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ بہتری کی توقع رکھتے ہیں جس میں وہ حق بجانب ہیں۔نومنتخب وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بنیادی تنخواہ 25ہزار روپے کرنے اورپنشنروں کے پنشن میں10فیصد ا ضافے کا اعلان کیا جو یقینا پرکشش ہے ۔اس سے سرکاری ملازمین اور پنشنرز حضرات یقینا خوش ہوں گے البتہ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ اعلان کرتے ہوئے ایک ایسے طبقے کو سراسر نظر انداز کیا جن کی ضعیف العمری کی پنشن نہایت قلیل ہے ۔ وزیر اعظم اگر اس طرف بھی توجہ دیتے تو معاشرے کے بڑے طبقے کو فائدہ ہوتا۔ نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چینلج بجٹ کا بھی ہوگا اور موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال فطری امر ہے کہ کیا حکومت نئے ٹیکس لگائے گی یا نہیں؟ اس نئی حکومت کو ایسا بجٹ بنانا ہوگا کہ معیشت کی گراوٹ کو روکا جاسکے اور ٹیکس کی مد میں آنے والے سرمائے کو بھی یقینی بنایا جاسکے، اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بہت نیچے جاچکی اور اس میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔اس کے علاوہ حکومت کو مستقبل کا روڈ میپ بھی دینا ہوگا جو نئی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے۔ معیشت میں فوری بہتری لانا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن نئی حکومت کو کوئی نہ کوئی ایسا منصوبہ دینا ہوگا جس سے معیشت کے زوال کو روکا جاسکے۔اس کے علاوہ دوسرا اہم معاملہ خارجہ امور ہوں گے۔ لیکن نئی حکومت کی کوشش یہ ہوگی کہ عمران خان کے بیانات کی وجہ سے جو حالیہ تنائو آیا ہے اسے کم کیا جائے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لئے سابق حکومت کے اشیائے خوردونوش پر بھاری ٹیکسوں نے کمی لانے کے بھی ضرورت ہو گی حکومت کو آٹا سستا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر گھرانے کی ضرورت کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں ترجیحی بنیادوں پر کمی لانے کی سعی کرنی ہو گی اس میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں کمی کی ضرورت بھی ہو گی ۔ خوردنی تیل اور گھی پر چھ قسم کے ٹیکس عائد ہیں حکومت اگر ان میں سے بعض ٹیکس ختم کردے تو ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی آسکتی ہے ۔ مہنگائی میں کمی لانے کے لئے جنوری کے 343 ارب روپے کے منی بجٹ پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی ۔آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے گزشتہ حکومت نے عوام پر جو بوجھ ڈالا تھا اس بوجھ کو ہلکا کرنا بڑے امتحان سے کم نہیں اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیر اعظم نے جس عوامی ریلیف کا عندیہ دیا ہے اس کو عملی طور پر اور جامع صورت میں نافذ کرنا ہوگا اور موجودہ حکومت کو ایسا کچھ کرکے دکھانا ہو گا جو اسے سابق حکومت سے مختلف ثابت کرے۔وزیراعظم نے اننگز کا آغاز تو اچھا کیا ہے لیکن آخری گیند کیسے کھیل جاتے ہیں اور میچ جیتنے کے لئے کیا کامیاب حکمت عملی اختیار کرتے ہیں یہی ان کا اصل امتحان بھی ہو گا اور مخالفین کو مسکت جواب بھی۔ کامیاب حکمت عملی اور اس پر پوری طر ح سے عملدرآمد سے ہی میچ میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے