مشرقیات

فی سبیل اللہ فساد کی تمام تر تیاری مکمل کر لی گئی ہے ،دعا کریں کم ازکم رمضان کریم کے احترام میں ہی زبانیں شعلے نہ اگلیں اگرچہ ہم رمضان کے احترام کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تاہم اک دعا کا سہارا تو ہے۔یہ سیاسی عدم برداشت ہے اور اول روز سے ہی آشکار کہ حریف جس طرح سے اپنے اپنے پیروکاروں کو اندھی عقیدت میں گوندھ کر میدان میں اتار رہے ہیں یہ اس ملک میں خانہ جنگی کا باعث بھی بن سکتی ہے ،اب اس میں کسی کو رتی بھر شبہ نہیں رہا کہ حالات کو سدھارنے کی سبیل نہ کی گئی تو ہم خاکم بدہن یمن ،شام ،لیبیا کی مثال بن جائیں گے۔ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ جس نے درد دیا ہے اسی عطار کے لونڈے سے دوا بھی ہم کو لینی پڑے گی ،سوائے اس کے کوئی اور چارہ نہیں۔کیا ہمارے یہ چارہ گر اب ہوش کے ناخن لیں گے یا ساری کشتیاں جلا کر انہوں نے صرف اپنے سیاسی مفاد کی غرض سے قوم وملک کا بیڑہ ڈبونا ہے۔چند دن پہلے کی بات ہے ہمارے ایک محتر م لیڈر جو قوم کے غم میں ڈنر حکام کے ساتھ کھاتے ہیں بیا ن دیتے سنے گئے کہ جمعہ کے خطبات میں آئمہ حضرات نے کیا فرمانا ہے، ایک سیاسی جماعت کے خلاف وہ کھلے عام آئمہ کو شہ دے گئے اور یہ بھلا گئے تھے کہ خطبات سننے والوں میں صرف ان کی جماعت کے لوگ ہی مسجد کے احاطے میں موجود نہیں ہوتے بلکہ بھانت بھانت کی سیاسی بولیاں بولنے والوں کا جمعہ کے روز کچھ زیادہ ہی ہجوم ہوتا ہے ،ایسے میں سیاست کے موضوع پر مخالفوں کے خلاف بات کرنے کا مطلب دعوت مبارزت ہی ہوا۔۔۔ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے جناب، آپ نے دیکھ ہی لیا جذبات کو سان پر چڑھانے کا انجام ،ایک دوسرے کو کھلے عام گالیاں دی جارہی ہیں ہمسائے کا دشمن ہمسایہ ،بھائی ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے تقسیم ،لڑائی مار کٹائی کی خبریں بتا رہی ہیں کہ بات کہاں تک پہنچ گئی ہے گروپوں کی صورت میں تصادم ہونے لگا ہے اور وہ بھی ایک ہی گائوں محلے یا شہر میں۔ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے والے ایک دوسرے کے خونی رشتہ دار بھی ہوتے ہیں ،ہمسائے بھی اور عزیز ترین دوست بھی ،محبت کا بیج ان کے دل سے نکال کر نفرت کی تخم ریزی کس نے کی؟اس کا جواب سب کے سامنے ہے۔ہم جانتے ہیں کون ہیں معاشرے کو آگ کی نذر کرنے کے خواہش مند، مگر افسوس ہے کہ انہیں ہم بزور قوت روک نہیں سکتے نہ قانون کے پاس ان کا کوئی علاج ہے، سیاسی عصبیت کا حصار کھینچے وہ جن محلات میں عیش وآرام سے رہ رہے ہیں ان کی لگائی گئی آگ عن قریب ادھر بھی پہنچنے والی ہے، کوئی حصار انہیں اس سے بچا نہیں پائے گا البتہ وہ چاہیں تو توبہ تائب ہو کر اپنے عقیدت مندوں کی باگیں کھینچ سکتے ہیں اور اسی میں ان کا بچائو ہے۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے