واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے

معلوم نہیں واقعہ ہے یا لطیفہ ‘ یا پھر لطیفہ نما واقعہ یا پھر جو بھی آپ سمجھیں ‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے یعنی بقول سردار اسلم رئیسانی ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی ‘ بلکہ ناک اگر سیدھے سیدھے سامنے سے پکڑیں یا پھر ہاتھ گردن کے پیچھے سے گھما کر پکڑیں مقصد تو ناک پکڑنے سے ہے ‘ بہرحال قصہ مختصر لطیفہ نما واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار دوچار دوست اپنے گائوں کے قریب درختوں کے ایک جھنڈ میں گپ شپ لگنے گئے ‘ ان میں سے ایک دوست ایک موٹے تنے کے درخت پر چڑھ گیا ‘ ایک اور دوست نے باقی ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میں صرف تین لاتیں درخت کو مار کر اسے نیچے لا سکتا ہوں ‘ دوست اس بڑھک پر اس کا مذاق اڑانے لگے ‘ شیخی بگھارنے والے نے اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لئے باقی کے دوستوں کے ساتھ شرط باندھنے کو کہا تو شرط باندھی گئی ‘ شیخو (شیخی بگھارنے کی نسبت سے شیخو مناسب رہے گا) نے دور جا کر دوڑتے ہوئے آکر درخت کو لات ماری تو ظاہر ہے درد سے تڑپ اٹھا ‘ باقی کے ساتھی قہقہے لگاتے رہے ‘ تاہم اس نے ہمت نہیں ہاری اور ایک بار پھر پہلے سے بھی زیادہ فاصلے سے دوڑ لگاتے ہوئے ایک بار پھر درخت کو لات رسید کی مگر درد سے اس کی چیخیں نکل گئیں ‘ شرط باندھنے والے اور زور زور سے قہقہے بلند کرتے رہے ‘ جب پائوں کا درد قدرے کم ہوا تو وہ مزید دور تک گیا اور پھر اچانک دوڑتا ہوا بجائے درخت کو ایک اور یعنی شرط کے مطابق تیسری بار لات رسید کرنے کے الٹا گائوں کی سمت بھاگ گیا ‘ دوست اس کی یہ حرکت دیکھ کر خوب محظوظ ہوئے ‘ ہنستے ہنستے بھاگ جانے والے پر جملے کستے ہوئے یہ کہنے لگے کہ وہ اپنی ٹانگ پر مرہم لگا کر آنے ہی والا ہے ‘ وغیرہ وغیرہ ‘ مگر خاصی دیر تک وہ نہ آیا تو انہیں تشویش ہوئی اور انہوں نے واپس گائوں آکر اس کی خیریت معلوم کرنے کا فیصلہ کیا ‘ درخت پر چڑھنے والا بھی نیچے اتر آیا اور سب مل کر درخت کو دو لاتیں مارنے والے کے گھر گئے ‘ دستک دی تو وہ باہر نکلا سب نے اس کی ٹانگ کی خیریت دریافت کی تو اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ‘ کیوں مجھے کیا ہوا ہے؟ اس پر ایک دوست نے کہا ‘ چلو اچھی بات ہے مگر تم جو شرط ہار گئے ہو اس شرط کی رقم ہمارے حوالے کرو ‘ شرط باندھنے والے نے کہا میں کہاں ہارا ہوں ‘ شرط تو تم لوگ ہار چکے ہو ‘ سب اس کا منہ دیکھنے لگے ‘ تو ان کی حیرت میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ”شیخو” نے کہا ‘ میں نے تین لاتیں رسید کرنے کی شرط رکھی تھی ‘ اور ابھی تیسری لات تو درخت کو مارنے کی نوبت نہیں آئی ‘ مگر یہ نیچے اتر بھی آیا ہے اور اب تم سب کے ساتھ میرے سامنے موجود ہے گویا بقول اکبر الہ آبادی
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کردیا کعبہ کو گم اور کلیسا نہ ملا
یہ کہانی نما لطیفہ یوں یاد آیا کہ کہانی کے ”شیخو” کی طرح راولپنڈی کے شیخ جنہیں نون لیگ کے ایک اہم سیاسی رہنما راولپنڈی کا ۔۔۔۔ کہتے ہیں ‘ ڈاٹس کو آپ خود ہی پر کر سکتے ہیں کہ ہم اس کی جرأت کرکے اپنی غیر جانبداری کو امتحان میں نہیں ڈال سکتے ‘ تاہم ایک دو اہم اور سینئر صحافی موصوف کو بقراط عصر کے نام سے یاد کرتے ہیں جو زیادہ محفوظ لفظ ہے ‘ جی ہاں عرف عام میں وہ خود کو فرزند راولپنڈی پکارتے ہیں اور جن کا عمومی تعارف لال حویلی کے حوالے سے ہے ‘ یعنی سابق وزیر داخلہ وغیرہ وغیرہ ‘ شیخ رشید نے اپنے ایک بیان میں گزشتہ روز دعویٰ کیا کہ ”امپورٹیڈ حکومت قائم رہ گئی تو میرا نام شہباز شریف رکھ دینا ان کے اس دعوے کو ماضی میں ان کی بڑھکوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو بقول نسیم اے لیہ کے یہی کہا جا سکتا ہے کہ
توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا
بے ساختہ سرکار ہنسی آگئی مجھ کو
یعنی اس بے ساختہ ہنسی کا کارن اسی نوعیت کے ان کے سابقہ دعوے ہی ہیں جن میں وہ اس وقت کی اپوزیشن(موجودہ حکومتی جماعتوں) کو دھمکیاں لگاتے تھے کہ اور کبھی نون سے شین نکالے ‘ کبھی انہیں تحریک عدم اعتماد لانے کی تڑیاں لگا کر ان کا مذاق اڑاتے تھے ‘ اور اب جب نہ صرف تحریک عدم اعتماد آ بھی چکی کامیاب بھی ہو چکی تو وہ حکومت کو ”امپورٹیڈ” قرار دیتے ہوئے اس کے نہ چلنے کے دعوے کر رہے ہیں ‘ تاہم چالاکی انہوں نے یہ کی ہے کہ حکومت کے جانے یا قائم نہ رہنے کی مدت کا تعین کرنے سے کنی کترا کر اپنے ”شیخ” ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر لی ہے ‘ ظاہر ہے حکومت نے ایک نہ ایک روز تو چلے ہی جانا ہے ‘ خواہ بقول حکومتی اکابرین کے ضروری قانون سازی کرکے اور سابق حکومت کے پھیلائے ہوئے ”گند” صاف کرنے کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کرکے جائے یا بقیہ ڈیڑھ سالہ مدت پوری کرکے جائے ‘ تو جیسے ہی موجودہ حکومت جانے کا اعلان کیا جائے گا شیخ صاحب خم ٹھونک کر ”درخت کو دو لاتیں رسید کرنے والے کی مانند” کہہ دیں گے ‘ دیکھا میں نے نہیں کہا تھا کہ یہ حکومت مزید نہیں رہے گی ۔ یعنی ان کا یہ بیانیہ ”کامیاب” ہو جائے گا کہ ”یہ کمپنی نہیں چلے گی” شاہد ذکی نے شاید شیخ صاحب ہی کے حوالے سے کہا تھا
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے
عوام موصوف کی وہ اداکاری ابھی تک نہیں بھولے جب موصوف 126 دن کے دھرنے کے دوران ”جلادو گرا دو’ توڑ دو” وغیرہ کے نعرے لگاتے ہوئے 1970ء کے دو رکے مولانا عبد الحمید بھاشانی کی جلائو گھیرائو مہم کی یاد تازہ کر رہے تھے ‘ تاہم ان کے اسی بیانئے کا شاخسانہ گزشتہ دو دن سے پاکستان کے عوام بیرون ملک مقیم بعض عاقبت نااندیش سیاسی طور پر بھٹکے ہوئے گمراہوں کی جانب سے ملکی پرچم اور پاسپورٹ جلانے کے مظاہروں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ویسے تو بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جلائے جانے والے پاسپورٹ ایکسپائرڈ ہیں اور ان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ دوسرے پاسپورٹ یعنی جو انہوں نے امریکہ یا برطانیہ سے لے رکھے ہیں وہ جلا کر بتائیں تو مانیں مگر جس طرح گزشتہ روز ایم جے ٹی وی کے مطیع اللہ جان کے اس سوال پر جو شہباز گل سے انہوں نے امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگانے کو کہا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہ گئے حالانکہ ان کی جماعت کا دعویٰ تو یہی ہے کہ امریکہ نے سازش کرکے عمران حکومت گرائی ‘ اسی طرح شیخ رشید نے بھی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے پر ڈرامہ بازی کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ سپیکر کی بجائے عمران خان کو بھجوا دیا ہے۔
نہ ایسے بھی خدایا زہد و تقویٰ کا بھرم نکلے
فقیہان حرم کی آستینوں سے صنم نکلے

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟