نئے ملاکھڑوں کا موسم

امریکہ کی”مدد”سے بننے والی نئی حکومت کے قیام کے بعد ڈالر کی قیمت میں اب تک مجموعی طور پر 8روپے کی کمی ہوئی، سٹاک مارکیٹ بھی بہتری کی طرف گامزن ہے۔ عالمی مارکیٹ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ ادھر پچھلے دو تین دنوں میں گھی اور چینی کی فی کلو قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر 85روپے کی بجائے چینی 94روپے کلو فروخت کرنے کا نوٹیفکیشن پچھلی حکومت کی منظوری سے جاری ہوا تھا۔ بعض سابق وزرا اپنے دور کے اس نوٹیفکیشن کو نئی حکومت کا اقدام قرار دے رہے ہیں۔ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت بہرطور اب دودنوں میں بڑھی ہے۔ گھی بنانے والی کمپنیوں کا موقف ہے کہ یہ اضافہ ڈالر کی قیمت 190 روپے تک جانے سے اٹھنے و الے اخراجات کی وجہ سے ناگزیر تھا۔ وعدوں، تسلیوں اور بعض اعلانات کے ساتھ نومنتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کا آغاز کیا تھا مگر اب ان کے بعض رفقا جو مسلم لیگ (ن)کی پچھلی حکومت میں اہم منصبوں پر فائز رہے ہیں یہ کہہ رہے ہیں کہ تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافے کا معاملہ بجٹ میں دیکھا جائے گا اور بنیادی تنخواہ 25ہزار روپے مقرر کرنے کے معاملے کا بھی وسائل کے مطابق جائزہ لینا ضروری ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف قبل ازیں آبادی کے اعتبار سے ملک کے بڑے صوبے پنجاب کے تین بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں ان کی انتظامی صلاحیتوں پر دو آرا نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ایک ایسے وقت میں وزیراعظم بنے ہیں جس میں ایک جانب انہیں سابق حکمران قیادت کی سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا تو دوسری جانب مسائل ہیں۔ اپنے بیانیہ میں پیش کئے گئے ان مسائل سے نئی قیادت کیسے عہدہ برآ ہوتی ہے یہ اہم ترین سوال ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ سنگین ہوتے ان مسائل پر کم سے کم وقت میں قابو پانے کے لئے وہ کیا اقدامات کرتے ہیں۔ ان اقدامات سے قبل حکومت کو یہ وضاحت کرنا ہی ہوگی کہ چینی کی قیمت میں اضافے کا نوٹیفکیشن پچھلی حکومت میں جاری ہوا تھا یا حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی یوٹیلٹی سٹورز اور شوگر مل مالکان نے اس ضمن میں من مانی کی۔ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں دو دنوں کے دوران ہونے والے اضافے کی وجہ وہی ہے جو گھی بنانے والی فیکٹریوں کے مالکان کہہ رہے ہیں؟۔
مندرجہ بالا دونوں سوالوں کا جواب اس لئے بھی ضروری ہے کہ معاملہ کچھ بھی رہا ہو مہنگائی میں اضافے کا عذاب تو عام آدمی پر ہی ٹوٹتا ہے اور اب بھی وہی اس کی زد میں آیا ہے۔ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر واقعتا 22ارب ڈالر ہیں ان میں سے 11ارب ڈالر واقعی حکومتی خزانہ میں ہیں حقیقت میں یہ 3ارب ڈالر ہیں اور11ارب ڈالر دوست ملکوں کی امانت کے طور پر موجود ہیں جن سے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنا مقصود تھا۔ سابق حکمران اتحاد نے آئی ایم ایف سے سپورٹ پروگرام منظور کروایا تھا تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے بعد کی صورتحال کے بیچوں بیچ یہ خبریں موصول ہوئیں کہ آئی ایم ایف نے92 کروڑ ڈالر کی قسط طے شدہ پروگرام کے مطابق دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس انکار کی وجہ یہ بتائی گئی کہ معاہدہ کرنے والی حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اضافہ کیا جائے گا۔ ملکی معیشت کے حوالے سے بھی انہوں نے دعوی کیا کہ سابق حکومت بارودی سرنگ بچھاکر گئی ہے ہمیں 5600ارب روپے کا خسارہ ورثے میں ملا ہے۔ نئی حکومت کے معاشی ماہرین کے اس موقف کو درست مان لیا جائے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ مسائل ہیں بلکہ سنگین بھی ہیں۔ اس طور یہ سوال اہم ہے کہ حکومت ان مسائل کو بجٹ سے قبل حل کرپائے گی اور کیا بجٹ میں عوام اور بالخصوص سرکاری ملازمین کے لئے کسی ریلیف کی امید کی جائے؟ یہ خیال بھی رہے کہ سابق حکمران قیادت کے بعض ذمہ داران نے مفتاح اسماعیل کے پیش کردہ اعدادوشمار اور معاشی بدحالی کے موقف کو مسترد کردیا ہے۔ چند دن قبل رخصت ہونے والی حکومت کے ذمہ داران بھی مسائل کا اعتراف کرتے تھے لیکن ساتھ ہی وہ اس حوالے سے عالمی صورتحال کو دوش دیتے ہوئے یہ سوال کرتے دکھائی دیتے تھے کہ جب پاکستان اسی کرہ ارض میں موجود ہے تو عالمی حالات سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ اقتدار کی منتقلی کے عمل میں رخصت ہونے والوں کے دعوئوں اور آنے والوں کا پیش کردہ بیانیہ اگر طاق پر بھی اٹھارکھا جائے تو بھی اس امر سے انکار نہیں کہ مسائل موجود ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان کی سنگینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف پچھلے دور کے معاہدے پر عملدرآمد نہیں چاہے گا اس صورت میں عالمی مالیاتی ادارے کو کیسے قائل کیا جائے گا کہ وہ اپنی شرائط پر ہمارے معروضی حالات کے تناظر میں نظرثانی کرے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں پر دو آرا نہیں مگر فوری طور پر جو معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل سر اٹھائے ہوئے ہیں انکا حل کیا جانا ضروری ہے۔ متوازن پالیسیوں پر عمل اور سیاسی تصادم سے محفوظ رہ کر اصلاح احوال کے لئے اقدامات اٹھانے پر ہی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہی اصل امتحان ہے۔ ہم مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی نے جہاں لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے وہیں آمدنی اور اخراجات میں در آئے عدم توازن کی وجہ سے طبقاتی خلیج بھی خوفناک حد تک وسیع ہوئی ہے۔ کم سے کم وقت میں اس خلیج کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔ نئی حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایران اور بھارت سے تجارت میں بہتری لاکر معاملات کو سدھارا جاسکتا ہے۔ ایران سے اشیا کے بدلے اشیا کی تجارت مفید ہوسکتی ہے بالخصوص تیل کی قیمت کی ادائیگی اجناس کی صورت میں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سی پیک منصوبہ پر کام کو تیز کرنے سے معیشت کو سدھارنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت درپیش مسائل کے حل کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گی اور بعض سنگین مسائل سے نمٹنے کے لئے دوست ممالک سعودی عرب، چین، ترکی اور ایران سے تعاون کی درخواست کرے گی ان ممالک نے ماضی کے ہر مشکل وقت میں پاکستان اور اہل پاکستان کا دوستانہ جذبوں سے ساتھ دیا ہے۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !